دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یہ دنیا اب ملٹی پولر بن چکی ہے۔راجہ مبین اللہ خان
No image سوئٹزرلینڈ میں چین اور امریکہ کے مابین طے پانے والے معاہدے نے عالمی معیشت پر فوری مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ وال اسٹریٹ میں بہتری کے ساتھ ساتھ امریکی کرنسی بھی مضبوط ہوئی ہے۔ ایشیا کی مالی منڈیوں نے بھی خوشحالی کا رخ اختیار کیا ہے۔ اگرچہ یہ پیشرفت صدر ٹرمپ کے لیے وقتی کامیابی کا پیغام لے کر آئی ہے، تاہم مغربی میڈیا کے رویے نے ان کے لیے سیاسی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔
مغربی صحافت نے اس سفارتی کامیابی کو ٹرمپ انتظامیہ کی ناکامی کے طور پر پیش کیا ہے۔ معروف جریدوں نے اپنی رپورٹنگ میں اسے امریکی پالیسی کی پسپائی قرار دیا ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا موقف ہے کہ چینی قیادت نے امریکی دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا، جس کے نتیجے میں واشنگٹن کو اپنی پوزیشن نرم کرنی پڑی۔ میڈیا کے مطابق، چین کی مستحکم حکمت عملی اور ثابت قدمی نے بین الاقوامی تعلقات میں اس کے وقار کو بلند کیا ہے۔
اس واقعے نے بین الاقوامی سیاست کے نئے حقائق کو بھی اجاگر کیا ہے۔ اب عالمی طاقت کا مرکز صرف امریکہ تک محدود نہیں رہا، بلکہ چین ایک بااثر اور پائیدار قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ چین نے نہ صرف تجارتی جنگ کے دوران اپنی پالیسیوں پر ڈٹے رہنے کا مظاہرہ کیا، بلکہ یہ بھی ثابت کر دیا کہ آج کی دنیا میں کامیابی جبر سے نہیں، بلکہ دانشمندی اور صبر سے حاصل ہوتی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے عائد کیے گئے اقتصادی دباؤ کے جواب میں چین کا مستحکم موقف آخرکار کامیاب رہا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ طاقت کا جدید توازن اب پہلے جیسا نہیں رہا۔
اب امریکہ واحد سپر پاور نہیں رہی۔
واپس کریں