’پاکستان کو اب بھارت کی مسلسل جارحیت کے لیے تیار رہنا ہوگا‘ عارفہ نور

پاکستان اور بھارت ایک خوفناک تنازع کے دہانے سے واپس لوٹے ہیں۔ اس تنازع کا اختتام جانا پہچانا تھا جہاں امریکا نے مداخلت کی لیکن دونوں ممالک کو یہ نہیں لگتا کہ بحران واقعی میں ختم ہوچکا ہے۔ تاہم بہت سے نتائج فی الوقت ڈی جی ایم اوز کی بات چیت (جو تادمِ تحریر ہونا باقی ہے) پر منحصر ہیں۔
درحقیقت بات چیت اور اعلامیے کے بعد بھی حالات بدلتے رہیں گے اور جیسا کہ ہم صحافتی زبان میں کہتے ہیں، یہ ایک ’ایسی صورت حال ہے جس میں مسلسل پیش رفت ہوتی رہے‘ گی اور حقائق اور تجزیے نامکمل رہیں گے۔ یہ تحریر بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ پھر بھی میں کچھ مسائل کو سیاق و سباق میں پیش کرنے کی کوشش کررہی ہوں۔
اشارے بتا رہے ہیں کہ جنگ بندی کی پاس داری کرنا آسان نہیں ہوگا۔ دونوں ممالک کے درمیان بے اعتمادی کی اصل وجہ برقرار ہے جبکہ دونوں کو لگتا ہے کہ ان کے ساتھ غلط ہوا ہے۔
ہمسایہ ملک کا مزاج ایک اور اہم عنصر ہے۔ وہاں چند حلقے بھارتی حکومت پر مشن ادھورا چھوڑنے پر تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں میں گمان ہے کہ صورت حال بدلے گی۔ پلوامہ واقعے کے برعکس، گمان ہوتا ہے کہ نئی دہلی کے لیے اپنے عوام کو اس بات پر آمادہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ جنگ بندی ہی درحقیقت ان کی کامیابی ہے۔
وائٹ ہاؤس جو جنگ بندی میں اپنے کردار کا دعویٰ کررہا ہے اور جشن منارہا ہے، اس نے بھی مودی حکومت پر تنقید میں اضافہ کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت اس پورے معاملے سے کیسے نمٹتی ہے۔
تاہم پاکستان میں جشن کا ماحول ہے۔ لیکن بہت سی وجوہات ہیں کہ جن کی بنا پر جنگ کا جشن کبھی بھی نہیں منانا چاہیے کیونکہ فتح بھی قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع اور خاندان اجڑنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ جنگ کوئی شاندار فعل نہیں ہے۔
جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے لیے بھی عوام کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سرحد پار مزاج انتہائی گرم ہے اور حالیہ تنازع نے ایک انتہائی اہم چیز واضح کی ہے، جو یہ ہے کہ مستقبل میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی صرف لائن آف کنٹرول پر ہونے والی جھڑپوں تک محدود نہیں رہے گی۔ لگتا ہے کہ اب ڈورنز، فضائی حملے اور بہت کچھ استعمال ہوگا۔ اور ان میں سائبر حملے بھی شامل ہوں گے۔ خفیہ کارروائیوں کے ساتھ ساتھ یہ سب بھی پاک-بھارت تعلقات میں متعدد چیلنجز کا باعث بنیں گے اور اس کا سب سے بڑا شکار عوام ہوں گے۔
پاکستان کو اب مستقبل میں وقتاً فوقتاً بھارت کے ساتھ جارحیت اور جنگی حالات کے لیے کمر کس لینی چاہیے۔ حریف 2016ء سے اب تک شدت پسندی کے ایک مخصوص پیٹرن پر چلا ہے۔
9 سال قبل نئی دہلی نے ایل او سی پر اسٹرائیک کی تھی۔ بہت سے لوگوں نے استدلال کیا کہ اس طرح کی اسٹرائیکس معمول کی بات ہیں حالانکہ بھارت کا تردید کرنے کے بجائے عوامی سطح پر ان اسٹرائیکس کا اعتراف کرنا غیر معمولی تھا۔
پلوامہ/بالاکوٹ اسٹرائیکس میں بھارت نے ایل او سی عبور کرکے پاکستان کی حدود میں حملے کیے۔ نتیجتاً پاکستان نے بھی فضائی حملے سے ہی جواب دیا۔ 6 سال بعد بھارت نے اپنی اسٹرائیکس میں شہریوں، سویلین اور ملٹری اہداف کو نشانہ بنایا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت نے اب یہ اپنا وتیرہ بنالیا ہے۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا نئی دہلی پر 2025ء میں جو کچھ ہوا اس سے بھی بڑا کچھ کرنے کے لیے دباؤ ہوگا یا نہیں۔ لیکن اب ایل او سی یا سرحد کے پار فوجی حملوں کو بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر میں ہونے والی کسی بھی دہشت گردی کے ردعمل کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ دوسرےالفاظ میں پاکستان کو اس حوالے سے غفلت نہیں برتنی چاہیے کہ مزاحمت کا توازن قائم ہوچکا ہے، جیسا کہ فرض کیا جارہا ہے۔ اس کے بجائے دونوں ممالک یہ ثابت کرچکے ہیں کہ جوہری جنگ تک پہنچے بغیر بھی خطرات کو نظرانداز کرتے ہوئے تنازعات کو اتنا سنگین رخ دیا جاسکتا ہے۔
ایک اور عنصر ہے جس کی خوشی منانے کے بجائے اسے سمجھنے کی بھی ضرورت ہے اور وہ تنازعے کے دوران پاکستان کا اندرونی اور بین الاقوامی سطح پر ابلاغ ہے۔ کچھ غلطیوں کے باوجود (جو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے) مجموعی طور پر پاکستان کی کارکردگی اچھی رہی۔ اگرچہ پریس کانفرنسز بہت زیادہ ہوئیں لیکن بین الاقوامی سطح پر مؤثر انداز میں مؤقف پیش کیا گیا۔ یہ واضح اس لیے بھی تھا کیونکہ بھارت بہت کم ہی عالمی میڈیا میں اپنا مؤقف پیش کرتا نظر آیا۔
لیکن اثر انگیزی کا براہ راست تعلق حقائق سے تھا جس نے اسلام آباد کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا۔ بھارت جارح تھا اور ایسے میں پاکستان اپنا دفاع کرے گا۔ اور پھر پاک فضائیہ نے بھارتی طیارے گرا کر ایسی شاندار فتح حاصل کی جس کی نئی دہلی تصدیق بھی نہیں کرسکا۔ اس سے اسلام آباد کے مؤقف کو مزید تقویت ملی۔
ملک میں بعض لوگوں کی ناراضی کے خدشے کے پیش نظر ہمیں کارگل کو یاد کرلینا چاہیے۔ کچھ حقائق کا دفاع کرنا اتنا مشکل ہوتا ہے کہ اچھی کارروائیاں بھی ان پر پردہ نہیں ڈال سکتیں۔ ہم صرف امید کرسکتے ہیں کہ اس کامیابی سے پاکستان کو یہ سبق بھی ملے گا کہ وہ دنیا کو اپنے ہر مؤقف پر قائل نہیں کرسکتا۔ ’تحمل‘ کی پالیسی کو برقرار رکھنا ضروری ہے حالانکہ اندرونِ خانہ کچھ حلقے اب اس پر تنقید کرنے لگے ہیں۔
’تحمل‘ کا لفظ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس حالیہ کامیابی سے حکومت کو یہ گمان نہیں ہونا چاہیے کہ یہ اپنے ملک میں ’ہارڈ اسٹیٹ‘ کے مزید سخت ہونے کا وقت ہے۔ آخرکار ہمارے ہمسائے نے بھی اس مفروضے پر یقین کیا کہ پاکستان کے اندرونی مسائل اور تقسیم اسے ’مناسب جواب‘ دینے سے روکیں گے جوکہ غلط ثابت ہوا۔ تاہم یہ سمجھنا اب بھی ضروری ہے کہ مزید جھڑپوں کے امکان کے پیش نظر، اندرونی مسائل حل کرنا زیادہ ضروری ہے۔
یہ سیاسی صورت حال بالخصوص بلوچستان کے معاملے میں سچ ہے۔ یہ ہماری سب سے کمزور فالٹ لائن ہے جس کا استحصال کیا جا سکتا ہے اور کیا جا رہا ہے۔ اگر اسے محفوظ بنانا ہے تو سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا۔ اور ساتھ ہی معیشت پر بھی سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ 2019ء اور 2025ء میں ہونے والی پاک-بھارت جھڑپوں کا اختتام کیسے ہوا، پڑوسی حکومت کی مالی حیثیت اسے اس طرح کی محدود محاذ آرائی کے لیے مستقبل میں بھی متحرک کرے گی۔ اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بہتر ہوگا کہ پاکستان بھی اپنی معیشت کو مضبوط، مستحکم بنائے اور قرضوں پر اپنا انحصار کم کرنے پر توجہ دے۔
آخری لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ حالیہ تصادم پاکستان با مقابلہ بھارت کم بلکہ چینی با مقابلہ مغربی ساختہ ہتھیاروں کے حوالے سے زیادہ تھا۔ اگرچہ پاک فضائیہ کی کامیابی سے پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات مضبوط ہوں گے لیکن یہ اندازہ لگانے میں وقت لگے گا کہ بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر اس کا کیا مطلب ہے۔ امید کرتے ہیں کہ یہ دفاعی تعاون اس نوعیت کی اسکروٹنی کا شکار نہ ہو جو حالیہ برسوں میں سی پیک کی صورت میں ہم نے دیکھا۔
واپس کریں