دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیاست میں حرفِ آخر کچھ نہیں
No image عمران خان سے ہمدردی نہیں لیکن محسوس ہوتا ہے کہ خان کو(بشمول ملٹری کورٹ) جیل سے بل آخر رہا کر دیا جائے گا۔ خان کی رہائی بڑے پیمانے پر احتجاج اور مظاہروں کو جنم دے گی، اس کے حامی اس کی قید اور اس کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے احتساب کا مطالبہ کر رہے ہوں گے، حکومتِ وقت آزمائش میں پڑی ہوئی ہو گی، پی ٹی آئی کے اصل بانی اور مالکان دور کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہوں گے اور خان پہلے سے بڑے لیڈر کے طور پر کھڑا ہو گا۔
خان ڈرائی کلین ہو کر وکٹری کا نشان بناتے ہوئے جیل سے باہر نکلے گا،دعویٰ کیا جائے کہ خان کی بے گناہی ثابت ہو گئی ہے کیونکہ اگر کوئی جرم کیا ہوتا تو جیل سے رہائی نہ ملتی۔اسے جیل میں پہنچانے والے بھی کہیں گے کہ ہم کب تک کسی بے گناہ کو جیل میں قید رکھتے؟اس کی وجہ پی ٹی آئی کا ایک بڑا ووٹ بینک بحرحال دستیاب ہے جو8 فروری کے الیکشن میں ثابت بھی ہو چکا ہے،اسے کسی بھی صورت میں ہاتھ سے جانے نہیں دیا جائے گا کیونکہ بھاری سرمایہ کاری اور محنت سے کھڑی کی گئی پی ٹی آئی کے خالق اور مالک کبھی نہیں چاہیں گے کہ ملک کی دیگر بڑی سیاسی جماعتیں کھل کر سیاست کر سکیں۔مطلب سیاسی میدان میں پی ٹی آئی کا ڈراوا ہر وقت موجود رہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ریڈ لائن سے باہر نکلتے ہوئے سول نافرمانی، قومی سلامتی کے خلاف بیان بازی،فوج اور فوجی قیادت پر تنقید کرنے کے باوجود پی ٹی آئی پر پابندی کیوں نہ لگائی جا سکی؟
ابھی دو دن قبل ہی اڈیالہ جیل کے باہر پی ٹی آئی کے سرکردہ لیڈر ایم این اے عامر ڈوگر سے الجھنے والے 3 پولیس افسران کو معطل کر دیا گیا جس سے اس امر کو تقویت ملتی ہے کہ سسٹم کے اندر سے تا حال پی ٹی آئی کے لیئے سہولت کاری جاری ہے۔ واضع رہے کہ تاحال اڈیالہ جیل میں عمران خان مکمل سہولت سے وقت گزار رہا ہے،اور اس بات کی تصدیق ان کی دو بہنوں نے دو روز قبل میڈیا خان سے ملاقات کے بعد اڈیالہ جیل سے باہر گفتگو کرتے ہوئے کی۔
صرف عمران خان کو ہی حدف کیوں بنایا گیا؟تو پھر اب خان کیوں ضروری ہے؟
پہلے کوشش تو یہی تھی کہ خان کی جگہ پی ٹی آئی میں سے کسی دوسرے کو سامنے لایا جائے اور پھر پی ٹی آئی کو اپنے طریقے سے استعمال کیا جائے،کوشش کامیاب نہیں ہو سکی چونکہ خان جاتے جاتے ایسا کام ڈال گیا کہ پی ٹی آئی کا ووٹر اور سپورٹر اب اصل مالکوں اور خالقوں کے ہاتھوں سے بھی نکل چکا ہے۔باالفاظِ دیگر پی ٹی آئی میں خان ون میں شو بن چکا ہے،یا پی ٹی آئی کا مطلب ہی عمران خان ہے۔لہذا مالکان کے لیئے خان ناگزیر ہوا، جسے نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کرنا پڑ رہا ہے۔
کسی کو اچھا لگے یا برا، تلخ حقیقت یہی ہے کہ خان نے اپنے تین سالوں میں صرف یہی ایک کام کیا(جو اس نے سسٹم کے اندر دیکھا) اس نے اپنے فالورز میں اضافہ کیا، ان کی برین واشنگ کی ایک کلٹ بنایا اورزومبیز بنائے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ جب اسے بھی ایک دن اقتدار سے نکال باہر کر دیا جائے گا(جو اس ملک کے پاپولر لیڈروں کے ساتھ ہوتا رہا ہے) اور یہی فین فالونگ اس کی تحریک چلائے گی اور اس وقت عین وہی ہو رہا ہے۔ آج اگر خان سیاسی طور پر زندہ ہے یا مالکوں کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے تو اپنی اسی حکمتِ عملی کے باعث ہے یعنی سوشل میڈیا۔
سیاست میں حرفِ آخر کچھ نہیں وہ بھی بلخصوص پاکستان کے سیاسی میدان میں۔”فائلوں“ کے مطابق اگر کل کے غدار آج محب وطن ہیں تو یہ کل پھر سے بہ وقتِ ضرورت غدار کہلائے جا سکتے ہیں اور یہی تماشہ قوم کئی برسوں سے دیکھ رہی ہے۔
واپس کریں