
بھارت کی جانب سے آزاد کشمیر میں ایک مبینہ فضائی حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں کئی شہری زخمی ہوئے اور بعض اطلاعات کے مطابق جان کا ضیاع بھی ہوا۔ پاکستان نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے فوری طور پر کنٹرول لائن کے قریب بھارتی فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ اس واقعے نے ایک بار پھر دونوں جوہری ممالک کے درمیان خطرناک کشیدگی کو جنم دیا ہے۔
یہ کارروائی محض ایک سرحدی واقعہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے کئی سیاسی عوامل کارفرما ہیں۔ بھارت میں عام انتخابات اس وقت جاری ہیں، اور ایسے حالات میں ماضی کی طرح حکومتی بیانیہ "بارڈر پار دشمن " کو بنیاد بنا کر ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان کے خلاف سخت موقف اختیار کرنا ایک آزمودہ نسخہ ہے جو ووٹ بینک بناتا ہے۔یہ پہلی بار نہیں بلکہ ہر الیکشن میں ایسا کچھ ہوتا ہے۔
دوسری طرف پاکستان میں گزشتہ چند برسوں کے دوران عسکری بیوروکریسی پر سیاست میں مداخلت کے الزامات لگتے رہے، جس کے باعث عوام کی ایک بڑی تعداد میں فوج کے خلاف تنقید کا رجحان بڑھا۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کہیں یہ حالیہ کشیدگی ادارے کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی ایک کوشش تو نہیں؟ ممکن ہے کہ اندرونی سیاسی کمزوریوں کو چھپانے اور عوامی توجہ بٹانے کے لیے بیرونی خطرات کو نمایاں کیا جا رہا ہو۔
لیکن ان تمام سیاسی چالوں کا سب سے بڑا نقصان کس کو ہوتا ہے؟ عام انسان کو۔ چاہے وہ فوجی ہو یا عام شہری، مرنے والا ایک بیٹا، ایک باپ یا ایک شوہر ہوتا ہے۔ جنگیں صرف سرحدوں پر نہیں لڑی جاتیں، وہ گھروں کے چراغ گل کر دیتی ہیں، کئی بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں،جانی مالی نقصان ہوتا ہے۔امن ختم ہو جانے سے بدحالی جنم لیتی ہے۔بھوک ننگ اور افلاس ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس قسم کی کشیدگی اکثر عالمی طاقتوں کے مفادات کے لیے کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ مغربی ممالک، خصوصاً بڑی اسلحہ ساز کمپنیاں، ایسے مواقع سے فائدہ اٹھاتی ہیں — ہتھیاروں کی فروخت بڑھتی ہے، سفارتی اثر و رسوخ مضبوط ہوتا ہے، اور ترقی پذیر ممالک عدم استحکام کا شکار رہتے ہیں تاکہ وہ کبھی خودمختار پالیسی نہ اپنا سکیں۔
ان حالات میں دونوں ممالک کے عوام، دانشوروں اور نوجوانوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم ایک ایسے کھیل کا حصہ بن رہے ہیں جس میں صرف مہرے ہیں؟ کیا ہم اپنی سیاسی قیادتوں کے ذاتی مفادات، یا عالمی طاقتوں کے ایجنڈے کی خاطر اپنی نسلوں کا مستقبل داؤ پر لگا رہے ہیں؟
آج بھی عقلی و شعوری طور پر کہاں کھڑے ہیں اس وقت سب سے اہم ضرورت اس بات کی ہے کہ جنگی جنون کی بجائے مذاکرات، افہام و تفہیم اور باہمی احترام کو ترجیح دی جائے۔ امن ہی وہ واحد راستہ ہے جو جنوبی ایشیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد لوگوں کو ایک محفوظ، خوشحال اور پُرامن مستقبل دے سکتا ہے۔
واپس کریں