دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شاہ ولی اللہ کے کیپٹل ازم کی رد میں اقتصادی تصورات۔اکمل سومرو
No image مارکس کو طفل مکتب کہنے پر پاکستان میں موجود یورپ زدہ ذہن کو دھچکا لگا، حالانکہ خود یورپ و امریکی یونیورسٹیز میں شاہ صاحب کے افکار پر مقالے و تھیسز لکھے جا رہے ہیں۔ امریکی پروفیسر مارشیا، شاہ صاحب کی کتابوں کے انگریزی تراجم کر چکی ہے۔ شاہ صاحب کے معاشرے کی تشکیل کے اساسی اصول اور انٹرنیشنل سماج کی تشکیل کے اصول پھر کبھی شیئر کروں گا۔ شاہ ولی اللہ کا فکر بہت جامع اور وسیع ہے، شاہ صاحب کے علوم پر کمانڈ رکھنے والے بہترین استاد سے کتابوں کا سبق پڑھا جائے تو افکار کی گہرائی کا اندازہ ہوگا۔ میں ذیل میں شاہ صاحب کے افکار کا مختصر خلاصہ شیئر کر رہا ہوں:
1-دولت کی اصل بنیاد’’محنت ‘‘ ہے۔ مزدور اور کاشتکار اصل اکتسابی قوت ہیں۔ باہمی تعاون شہریت (Citizenship) کی روح رواں ہے۔ جب تک کوئی شخص ملک اور قوم کے لئے محنت نہ کرے ، ملک کی دولت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔
2۔جوا، سٹہ اور عیاشی کے اڈے فی الفور ختم کیے جائیں جن کے ہوتے ہوئے تقسیم دولت کا صحیح نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ ان اڈوں کی موجودگی میں قومی دولت بہت سی جیبوں سے نکل کر ایک طر ف سمٹ آتی ہے۔
3۔مزدور ، کاشتکار اوروہ لوگ جوملک وقوم کے لئے دماغی کام کریں، وہ ہی دولت کے اصل مستحق ہیں۔ ان کی ترقی اور خوشحالی ملک وقوم کی ترقی اور خوشحالی ہے۔ جو نظام محنت کش قوتوںکو دبائے ، وہ ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ ایسے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہئے۔
4۔جو سماحی نظام محنت کی صحیح قیمت ادا نہ کرے، قابل اعتبار نہیں، جب تک اس کی محنت کی وہ قیمت ادا نہ کی جائے جو امداد باہمی کے اصول پر لازم ہوتی ہے۔
5۔ضرورت مند مجبور مزدور کی خاموش رضامندی قابل اعتبار نہیں، جب تک اس کی محنت کی وہ قیمت ادا نہ کی جائے جو امداد باہمی کے اصول پر لازم ہوتی ہے۔
6۔جو پیداواراور آمدنی ،باہمی اور تعاون کے اصول پر نہ ہو،وہ خلاف قانون ہے۔
7۔’’کام کے اوقات محدود کیے جائیں‘‘۔ مزدوروں اور کاشتکاروں کو اتنا وقت ضرور ملنا چاہئے کہ وہ اپنی روحانی اور اخلاقی اصلاح کر سکیں اور ان کے اندر اپنے مستقبل کے متعلق غوروفکر کی صلاحیت پیدا ہو سکے ۔
8۔باہمی تعاون کا بہت بڑا ذریعہ تجارت اور کاروبار ہے۔ لہٰذا اس کو تعاون ہی کے اصول پر جاری رہنا چاہئے۔ پس جس طرح تاجروں اور کاروباری حضرات کے لئے جائز نہیں کہ وہ بلیک مارکیٹ اور ذخیرہ اندوزی یا غلط قسم کی مقابلہ بازی سے تعاون اور امدادباہمی کی روح کو نقصان پہنچائیں، اسی طرح حکومت کے لئے بھی مناسب نہیں کہ طرح طرح کے بھاری ٹیکس لگا کر تجارت کے فروغ اور ترقی میں رکاوٹ پیدا کرے اوررخنہ اندازی کرے۔
9۔وہ تجارت یا کاروبار جو دولت کی گردش کو کسی خاص طبقے میں منحصر ومخصوص کردے، ملک وقوم کے لئے تباہ کن ہے۔
10۔ایسا سیاسی وسماجی نظام ، جس میں چند اشخاص یا چند خاندانوں کو عیش وعشرت کے سبب سے دولت کی صحیح تقسیم میں خلل واقع ہو، اس کا مستحق ہے کہ اس کو جلدازجلد اوپر سے نیچے تک ختم کرکے عوام کے مصائب دور کیے جائیں اور ان کو مساویانہ نظام زندگی کا موقع دیا جائے۔
11۔زمین کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ اور ظاہری نظام کے لحاظ سے ’’ریاست‘‘(State) ہے۔ ملک کے باشندوں کی حیثیت وہ ہے جو کسی مسافر خانے میں ٹھہرنے والوں کی۔ ملکیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے حق انتفاع میں دوسرے کی دخل اندازی قانوناً ممنوع ہے۔
12۔تمام انسان برابر ہیں۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو مالک الملک ، ملک الناس ، مالک ِقوم یا انسانوں کی گردنوں کا مالک تصور کرے ، نہ کسی کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی صاحب اقتدار کے لئے ایسے الفاظ استعمال کرے۔
13۔ریاست کے سربراہ مملکت کی حیثیت وہ ہے جو کسی وقف کے متولی کی۔ وقف کا متولی اگر ضرورت مندہو تو اتنا وظیفہ لے سکتا ہے کہ عام باشندے کی طرح زندگی گزار سکے۔
14۔روٹی، کپڑااور مکان اور ایسی استطاعت کہ نکاح کر سکے اور بچوں کی تعلیم وتربیت کا بندوبست کر سکے ، بلا لحاظ مذہب ونسل وزبان ، ہر ایک انسان کا پیدائشی حق ہے۔
15۔اسی طرح مذہب ، نسل، رنگ یا زبان کے کسی فرق وتفاوت کے بغیر، عام باشندگان کے معاملات میں یکسانیت ومساوات کے ساتھ عدل وانصاف ، ان کے جان ومال کی حفاظت، ان کی عزت وناموس کی حفاظت، حق ملکیت میں آزادی ، حق اظہار میں آزادی ، حقوق شہریت میں یکسانیت وبرابری ملک کے ہر باشندے کا بنیادی حق ہے۔
16۔اپنی تہذیب ، ثقافت اور زبان کو زندہ رکھنا ہر فرقے کا بنیادی حق ہے۔
17۔بین الاقوامی تحفظات وحقوق کے حاصل کرنے کی صورت یہ ہے کہ خودمختار علاقے بنائے جائیں۔ یہ خودمختار اکائیاں اپنے معاملات میں آزاد اور خودمختارہوں گی۔ ہر ایک اکائی میں اتنی طاقت ضرور ہونی چاہئے کہ اپنی جیسی اکائیوں کے جارحانہ اقدام کا مقابلہ کر سکیں۔ یہ تمام اکائیاں ایک ایسے بین الاقوامی نظام (بلاک ) میں منسلک ہوں جو فوجی طاقت کے لحاظ سے اقتدار اعلیٰ کا مالک ہو۔ اس کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ کوئی مخصوص مذہب یا تہذیب کسی اکائی پر لاد سکے ، البتہ اس کا یہ فرض ضرور ہوگاکہ کسی قوم یا اکائی یا یونٹ کو یہ موقع نہ دے کہ کسی دوسری قوم کے مذہب یا تہذیب پر حملہ کرسکے۔
واپس کریں