
(ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان، ڈائریکٹر کشمیر پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ)مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں 22 اپریل کو سیاحوں پر فائرنگ سے 26 افراد ہلاک ہوئے اور بیسیوں زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ ایسے علاقہ میں ہوا جو سیز فائر لائن سے تقریباً 120 کلومیٹر دور ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی قابض افواج کے مکمل حصار میں بھی ہے۔ پہلگام میں ہی سنٹرل ریزرور پولیس کی یونٹ اور پولیس اسٹیشن موجود ہے اور اس مقام تک پنچنے کے لیے کم ازکم 09 چیک پوسٹیں موجود ہیں۔ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب امریکہ کے نائب صدر ہندوستان کے دورہ پر ہیں بالکل اسی طرح جیسے امریکی صدر کے 2000 میں دورہ کے دوران ہندوستان کی افواج نے چھتی سنگھ پورہ میں معصوم سکھوں کا قتل عام کر کے اس کا الزام پاکستان پر لگایا تھا۔ اگر پہلگام واقعہ کے فوری بعد کی صورتحال دیکھیں تو یہ عینی شاہدین کے مطابق یہ واقعہ تقریباً 30 منٹ جاری رہا اور اس واقعہ کے ایک گھنٹہ بعد تک پولیس موقع پر نہیں پنچی۔ لیکن فوری طور پر اس کا الزام پاکستان، کشمیریوں اور مسلمانوں پر لگا دیا گیا۔ کوئی شخص موقع سے گرفتار نہیں ہوا اور نہ ہی وہاں کوئی کیمرہ موجود تھا اس کے باوجود فوری طور پر فرضی تصاویر جاری کردی گئی۔ ہندوستانی میڈیا نے اس واقعہ کو ہندو مسلم تنازعہ، ہندووں پر کشمیریوں کا ظلم اور پاکستان کے ملوث ہونے کا راگ بدوں کسی ثبوت الاپنا شروع کر دیا۔ پاکستان نے کشمیریوں نے نہ صرف اس واقعہ کی مذمت کی بلکہ اس میں ملوث ہونے کے الزمات کا ثبوت بھی مانگاجو ہندوستان پیش نہیں کر سکا۔ ہندوستانی میڈیا کے روپورٹر کشمیر میں اس واقعہ کے اثرات پر سوال کرنے کے بجائے یہ سوال کرتے نظر آئے کہ پاکستان کے خلاف کیا کرنا چاہئے؟۔
ہندوستان کی نیشنل سیکورٹی کی کابینہ کمیٹی نے پہلگام واقعہ کے فوری بعد سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا، اس معاہدہ کے ختم کرنے کے لیے ہندوستان کافی عرصہ سے کوشاں تھا۔ پورے ہندوستان میں کشمیری طالب علموں پر تشدد کے واقعات ہوئے اور اکثر کو ہندوستان چھوڑ کر مقبوضہ جموں و کشمیر جانا پڑا۔ اس واقعہ کی آڑ میں ہندوستان میں مسلمانوں پر تشدد کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا جو ابھی تک جاری ہے۔ اس واقعہ میں ہندوستان کے مطابق تین لوگ ملوث ہیں جن میں 02 پاکستانی اور ایک کشمیر ی ہے جس کا ابھی تک نہ کوئی نام معلوم ہے اور نہ ہی کوئی ثبوت اس کے باوجود مقبوضہ جموں و کشمیر میں 100 سے زائد گھر مسمار کر دئیے گئے۔ اس وقت تک 5 ہزار سے زائد بے گناہ عام شہریوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔
وہ خواتین جو آزاد کشمیر یا پاکستان سے ہیں شادی کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر گئی ان کی وہاں پر اولادیں ہیں ان کو واپس پاکستان بھیجا جا رہا ہے۔ ہندوستان کی قابض افواج مقبوضہ جموں و کشمیر میں اس واقعہ کی آڑ میں کشمیریوں کو اجتماع سزا دے رہی ہے۔ اس واقعہ اور اس کے بعد کے حالات سے یہ یقین ہوتا ہے کہ یہ فالس فلیگ آپریشن ہندوستان نے خود کیا اور اس کی منصوبہ بندی ہندوستان میں اعلی سطح پر کی گئی۔ ہندوستان اس واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان اور کشمیریوں کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنا چاہتا ہے، پہلگام جو امرناتھ یاترا کے دوران اہم مقام ہے اس کو وادی کشمیر سے نکال کر جموں کے ساتھ ملانا چاہتاہے، پہلگام سے مقامی کشمیریوں کو بے دخل کر کے ہندوستانیوں کو آباد کرنا چاہتا ہے، سندھ طاس معاہدہ سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے اور کشمیریوں پر مظالم میں مزید اضافہ کے لیے جواز بنانا چاہتا ہے۔
ہندوستان نے اس واقعہ کے بعد حسب عادت و روایت پاکستان کو دھمیکوں کا سلسلہ شروع کیا جس کا پاکستان نے انتہائی دوٹوک اور دلیرانہ جواب دیا۔ پاکستان کی حکومت، افواج پاکستان اور پاکستانی عوام نے یکجا ہو کر یہ پیغام دیا کہ اگر ہندوستان نے کسی جارحیت کا آغاز کیا تو اس کا اختتام ہم اپنی مرضی سے کریں گے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے دوٹوک انداز میں کشمیریوں کے حق خواداردیت کی جدوجہد کی حمایت کا اعادہ کیا اور ہندوستان کو جارحیت کی صورت میں بھرپور جواب کا پیغام دیا۔ ہندوستان تو پہلگام واقعہ پر پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں دے سکا البتہ پاکستان نے ہندوستان کے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت پیش کیے ہیں۔
ہندوستان میں گذشتہ دو دہائیوں سے ہندو انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رحجانات، مسلمانوں کے عقائد اور مذہبی مقامات پر حملوں اور مسلمانوں کو ٹارگٹ کرنے کے واقعات نے دو قومی نظریہ کی حقانیت پر مہر ثبت کر دی ہے۔ سیکولر ہندوستان کی تھیوری صرف آئین کی کتاب تک محدود ہے جب کہ اسلامی نظریہ پر قائم پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ریاست اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ ہندوستان میں نہ صرف ہندو انتہا پسند تنظیمیں بلکہ ریاست کی سرپرستی اور حمایت سے مذہبی اقلیتوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی قوم تمام صوبائی، لسانی، علاقائی اور گروہی اختلافات سے نکل کر ایک پاکستانی قوم کی صورت میں متحد اور منظم ہو۔ پاکستان کا استحکام، سلامتی اور ترقی ہی ہم سب کی اجتماعی ترقی ہے۔ہندوستان کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں فسطائی اقدامات کو دنیا بھر میں بے نقاب کرنے کے لیے ہر شخص کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
واپس کریں