دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایک نیا عدالتی راز معذرت کے ساتھ
No image تحریر : نیاز احمد کھوسہ ایڈووکیٹ :جیساکہ میں بطور وکیل عدلیہ میں نیا نیا ہوں، جب عدلیہ کی طرف سے “ سستے انصاف “ کیلئے “ طریقہ واردات “ کا سُنتا اور دیکھتا ہوں تو مجھے حیرانگی کے ساتھ پریشانی بھی ہوتی ہے اور دماغ چکراکر رہ جاتا ہے۔
ایک ہفتہ پہلے ہوا یوں کہ مجھے کراچی ہائیکورٹ کے ایک کلرک کا فون آیا کہ آپ کے ایک کیس میں دوسری پارٹی کی طرف سے آج ارجنٹ ایپلیکیشن لگائی گئی ہے اور آج ہی کچھ دیر بعد یہ کیس فلان جج صاحب کے چیمبر میں Take upہوگا !!!! جب کلرک نے جج صاحب کا نام لیا تو میں نے اُس کو کہا کہ یہ جج صاحب تو سکھر میں بیٹھتے ہیں تو کراچی میں کیسے انھوں نے عدالت لگا لی ہے ؟؟؟؟ کلرک نے مجھے جواب دیا کہ یہ باتیں آپ سے بعد میں ہونگی !!! آپ ہائیکورٹ جلدی پہنچیں !!! میں نے اُس کو بتایا کہ آپ کیس پر نظر رکھنا میں اس وقت سکھر میں ہوں اور ہماری وکلا برادری نے ببرلو میں روڈ بلاک کیئے ہوں ہیں - میں سکھر سے اتنا جلدی کیسے کراچی آسکتا ہوں ؟؟؟؟
کچھ دیر بعد کلرک کا فون آیا کہ کیس جج صاحب کے چیمبر میں Take up ہوا !!!! جس وکیل کا وکالت نامہ کیس میں لگایا گیا تھا اُس کی جگہ کوئی اور پیش ہوا !!!!! جج صاحب کو پہلے ہی سے کیس کے متعلق پتا تھا اور سارا Done Basis پر کام ہورہا ہے جج صاحب نے آرڈر لکھوادیا ہے جیسے آرڈر پر دستخط ہوتے ہیں آپ کو کاپی واٹس آپ کرتا ہوں !!!!
بحرحال سکھر میں بیٹھ کر مجھے جو کچھ کرنا تھا وہ کردیا شام کو کلرک کا فون آیا کہ جج صاحب نے اپنا یکطرفہ لکھایا ہوا آرڈر پھاڑ دیا ہے اور کیس میں دوسری پارٹی کو نوٹس کردیا ہے اور دوسری Date دے دی ہے !!!!!
رات کو کلرک سے تفصیلی بات ہوئی کہ آپ مجھے سمجھاؤ کہ کراچی سے دوسرے شھروں میں ججز تو ایک سال کیلئے جاتے ہیں تو پھر اس جج صاحب نے کراچی میں کیسے عدالت لگا لی ہے ؟؟؟؟؟؟
کلرک نے کہا کہ یہ پریکٹس “ طریقہ واردات “ پُرانی ہے مگر اُس نے جو انکشاف کیا وہ میرے لیئے نیا ہے
کلرک نے بتایا کہ ہوتا یہ ہے جب کسی جج صاحب نے کوئی “ ضروری “ کام کرنا ہوتا ہے تو وہ اپنے پرائیویٹ سیکریٹری کو بتاتے ہیں کہ مجھے فلان تاریخ پر فلان عدالت کے Sitting Roster میں ایک یا دو دن کیلئے بیٹھنا ہے !!!! پرائیویٹ سیکریٹری صاحب کراچی کی روسٹر برانچ میں فرمائشی پروگرام نوٹ کروادیتے ہیں!!!! چیف جسٹس صاحب کو نوٹ Put up کیا جاتا ہے !!! چیف جسٹس صاحب بیچارے نیک نیتی سے %99 نوٹس پر ہاں کردیتے ہیں
واضع رہے کہ Urgent Applications والے کیسز Cause list میں بھی نہیں آتے اور نہ ہی website پر Upload ہوتے ہیں آپ نے یکطرفہ جو آرڈر کروانا ہے تو کروالیں بس دُرست “ راستے “ سے آئیں !!! آپ کا کام ایک ہزار فیصد ہوجائے گا اگلا بھلے سپریم کورٹ میں” مھمان “ جج صاحب کا آرڈر چیلینج کرلے وہاں بھی آپ کا کیس سالوں تک نہیں لگنا
میں نے سپریم جوڈیشل کاؤنسل کو خط لکھ دیا ہے کہ “ مھمان “ جج صاحب سے بھلے آپ پورے پاکستان کے کیسز کا انصاف کروالیں مگر ہمیں معافی دیں ہمارا کیس “ مھمان “ جج صاحب کی عدالت میں نہ لگنے دیا جائے !!! ہمیں” مھمان “ جج صاحب کے انصاف کی ضرورت نہیں ہے !!!!!
اب دیکھتے ہیں کہ اگلی تاریخ پر سکھر کے جج صاحب کیا بھانہ بناکر کراچی میں عدالت لگانے کی فرمائش کرتے ہیں ؟؟؟؟ اور کیا ہوتا ہے !!!!
آگر میرے ہاتھ میں ہوتا تو آج ہی ایک نوٹیفیکیشن نکال دیتا کہ پٹواری سے لیکر ایس ایچ او / ایس ایس پی / ساری ماتحت عدلیہ / کسی بھی محکمے کا کوئی بھی افسر فرمائشی پروگرام پر مھمان کے طور پر کسی بھی ضلع میں !!!! کہیں بھی ایک یا دو دن کیلئے اپنے عہدے کا چارج لیکر بیٹھ سکتا اور احکام جاری کرسکتا ہے !!!!
نوٹیفیکیشن میں لکھتا کہ “ بھائی پیچھے کیوں کھڑے ہو آؤ لوٹ مار میں سے اپنا حصہ لو !!!!!! اور یہ بھی لکھتا کہ “ فلان فلان ضلع میں ریٹ مھنگا چل رہا ہے آپ اس اسکیم سے فاعدہ اُٹھاکر اُس بیچارے کا کام “ سستے “ میں کردو !!!!!
پبلک کے کام ہی تو کرنے ہیں !!! لوگوں کو سستا انصاف ہی تو دینا ہے !!!! پبلک مھنگا انصاف کیوں خرید کریں ؟؟؟؟ وکیل بننے سے پہلے جب میں انصاف کے ساتھ “سستہ انصاف “ سنتا تھا تو مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انصاف کے ساتھ “ سستا “ کیوں لکھا اور بولا جاتا ہے ؟؟؟؟ مگر اب سمجھ میں آیا کہ “ سستا “ انصاف کیا ہوتا ہے ؟؟؟؟ مطلب یہ کہ انصاف کی بھی ایک “ ریٹ لسٹ “ ہے جو باقاعدہ طور پر “ ڈپٹی کمشنر “ سے منظور شُدہ ہوتی ہے !!!!!!
کہاں تک سنو گے - کہاں تک سناؤں
ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا سناؤں
واپس کریں