
خدا جانے مجھ پر کوئی دورہ پڑا ہے یا گورنر صاحب کا بچپنا لوٹ آیا ہے کہ ہمیں ماضی میں دھکیل دیا۔ ہمارے لڑکپن میں پاکستان ٹیلی ویژن پر کپڑے دھونے والے ایک صابن کا اشتہار چلتا تھا، جس کا دلفریب نعرہ تھا: "ہم تو جانے سیدھی بات؛ صابن ہو تو 707۔"
آج کل ابلاغ عامہ کے ہر پلیٹ فارم پر ہمارے پختونخوا کے خوبصورت گورنر فیصل کریم کنڈی کے اشتہارات چلتے ہیں، جن میں وہ ہر جگہ، ہر کہیں اور ملک کے گوشے گوشے میں پائے جاتے ہیں—سوائے پختونخوا کے۔ گورنر صاحب نہ تو آج تک کرم جا سکے، نہ ہی وزیرستان کا دورہ کیا۔ باجوڑ اور مہمند تو جانے دیجیے، پہلوں میں واقع خیبر تک قدم رنجہ فرمانا گوارا نہیں کیا۔ گورنر ہاؤس کے جمعہ بازار میں ہر ندیدہ کو دید کرواتے ہیں یا پھر ڈیرا اسماعیل خان میں ختنوں، سالگرہ، منگنی اور دعائیہ تقریبات میں دیکھے جاتے ہیں۔ ان کے دیدار سے زیادہ تر پنجاب اور سندھ کے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ نہیں ملتے تو بس ہم غریب عوام کو نہیں ملتے۔ نہ ہی کبھی ہمارے پاس تشریف لائے ہیں اور نہ ہی ہمیں گورنر ہاؤس مدعو کر کے عزت افزائی بخشی ہے۔ ان کی یہ ادا دیکھ کر بس یہی خواہش سینے میں انگڑائی لیتی ہے:
"ہم تو جانے اک ہی بات؛ گورنر ہو تو ہمرے ساتھ۔"
گورنر صاحب تو صابن 707 بنے ہوئے ہیں جو ہمہ وقت وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا سردار علی امین گنڈاپور کی دھلائی میں مصروف رہتے ہیں۔ سنا ہے دونوں قریبی عزیز اور دوست ہیں، اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ خیر، بڑے لوگوں کی باتیں بڑے لوگ جانیں، ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ہمارے پیارے گورنر ہرجائی بن چکے ہیں۔ یہ جا، وہ جا، جابجا —یعنی ہر جا پائے جاتے ہیں، اور لغت میں شاید اسے ہی ہرجائی کہتے ہیں۔
یہ خیبر پختونخوا کے تاریخ کے واحد گورنر ہیں جو مزاروں پر پائے جاتے ہیں، سالگرہ کی تقریبات کو رونق بخشتے ہیں اور ملک کے دوسرے شہروں کی افطار پارٹیوں میں نظر آتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں چاہے بم دھماکے اور خودکش حملے ہوں، فوج، پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے لوگ شہید ہو رہے ہوں یا عوام مصیبت میں ہو، گورنر صاحب دوربین میں بھی نظر نہیں آئیں گے۔ مگر ایک بات ماننی پڑے گی کہ بندہ پی ٹی آئی کے ٹکر کا ضرور ہے۔ سمارٹ ہے، کپتان کی طرح—بلکہ ان سے بہتر ہے! وہ اڈیالہ جیل کے قیدی ہیں اور یہ گورنر ہاؤس کے آزاد پنچھی۔
ویسے بھی جب سے موچھل وزیرِ اعلیٰ نے ان سے جامعات کی چانسلری چھینی ہے، بیچارے کا دل پختونخوا میں نہیں لگتا۔ صرف بابو صاحب کے کردار تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں، جو اسمبلی بلاو کے رقعے پر نشانِ انگشت لگانے کے کام آتے ہیں۔ شریف النفس اور شرمیلے تو اتنے ہیں کہ مرکز کا نمائندہ ہو کر بھی مرکز سے صوبے کے لیے کچھ نہیں مانگتے۔ صوبے میں موجودگی اور کم فعالیت کی کسر گورنر صاحب فیس بک کے ذریعے پوری کرتے ہیں۔ بلکہ کبھی کبھی تو مجھے شک گزرتا ہے کہ کہیں یہ کوئی روبوٹ گورنر تو نہیں! شک کی وجہ 24 گھنٹے میں ان کی فیس بک پر 25 گھنٹے موجودگی، جو ایک روبوٹ ہی کر سکتا ہے۔
واپس کریں