دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ملاکنڈ آگ: کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
ملاکنڈ کے جنگلات کو بھسم کرنے والی آگ جو دانستہ طور پر لگائی گئی تھی بالآخر اپنی مدد آپ کے تحت علاقے کے لوگوں نے جمعہ کی شام 4 بجے کے آس پاس بجھا دی۔ تقریبا ایک ہفتے سے لگائی گئی اگ کو صوبائی حکومت ، تمام اداروں ، وزارتوں اور محکموں نے مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ اگ لگنے کے چوتھے دن محکمہ جنگلات کے 4 عدد اہلکار صرف تماشا دیکھنے کے لیئے وارد ہوئے تھے۔ محکمہ جنگلی حیات کو تو ماشاءاللہ آگ لگنے سے آگ بجھنے تک کوئی خبر ہی نہیں ہوسکی۔ ریسکیو کا 3 عدد ٹولہ بھی پکنک منانے آیا تھا جبکہ ضلعی انتظامیہ بھی منظر سے غائب تھا۔ ملاکنڈ لیویز کے اہلکاروں نے پوری ایمانداری کے ساتھ مقامی لوگوں کی بھرپور مدد کی تھی جسکے لیئے ملاکنڈ لیویز کی ستائش بنتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر جنید اکبر جو اسی حلقہ سے ایم این اے منتخب ہوئے ہیں نے تو پلٹ کر خبر تک نہیں لی۔ ڈاکٹر شفقت ایاز جو صوبائی مشیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی ہیں اور جنکا تعلق اسی گاوں سے ہے جہاں کے جنگلات میں اگ لگی ہوئی تھی، کو زبانی کلامی ہمدردی جتانے کی توفیق تک نہیں ہوسکی۔صوبائی وزیر جنگلات پیر مصور غازی جن کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے اور پی کے 24 سے منتخب ایم پی اے ہے تب تک عدم پتہ رہے جب تک راقم الحروف نے ملاکنڈ کے جنگلات کو لگائی گئی اگ کے خبر کو جنگل کی آگ کی طرح نہیں پھیلایا تھا۔ وزیر موصوف کو مجبورا انا پڑا مگر انہوں نے بجائے اگ بجھانے کے عمل میں مدد کرنے کے، جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پہلے تو عوام سے جھوٹ بول کر کہ آگ بجھانے کے لیئے ہیلی کاپٹر آرہا ہے جس سے علاقے کے تھکے ہوئے عوام تھوڑے سست پڑ گئے اور آگ نے زیادہ نقصان کیا۔ اگلے دن لوگوں کو احساس ہوا کہ وزیر موصوف زیادہ تباہی کے لیئے جھوٹ بول کر لوگوں کو آگ بجھانے کے عمل سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ عوام نے ہمت باندھ کر بالاخر آگ پر قابو پالیا۔ دوسرا فسادی کام وزیر جنگلات پیر مصور غازی نے یہ کیا کہ جن لوگوں نے آگ بجھانے کے عمل میں حصہ لیا تھا ان میں غریب لوگوں کو سرکار کی طرف سے دیہاڑی ادا کی جائی گی۔ ایک طرف تو اس اعلان سے قوم کو منقسم کیا گیا تو دوسری جانب انہیں کرپٹ کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ ائندہ وہ اجتماعی کاموں میں بھی ذاتی کمائی کا سوچ کر حصہ لیں اور قومیت کو مادہ پرستی سے شکست دینے کی کوشش کی۔ انتہائی فسادی تیسرا کام وزیر موصوف نے یہ بیان داغ کر کیا کہ یہ جنگلات نجی ملکیت ہیں اس لیئے حکومت نے مدد نہیں کی۔ اول تو قومی اثاثے کو ریاستی اور نجی ملکیت میں تقسیم کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ تقریبا 35 ہزار کی تعداد میں مختلف اقوام کی مشترکہ جائداد ہے جسے شاملات کہا جاتا ہے نہ کہ کسی فرد واحد کا جنگل ہے۔ اخری دراڑ وزیر موصوف نے یہ ڈالنے کی کوشش کی کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کے نام معاوضے کی فہرست میں ڈال دیئے جو اس اگ بجھانے کے عمل کے تماش بین تک نہیں تھے، امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینا تو دور کی بات ہے۔ صوبائی حکومت ، وزرا اور سرکاری اداروں کی سرد مہری نے کئی چھبتے ہوئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیا صوبائی حکومت کسی خاص مقصد کے لیئے ان جنگلات پر قبضہ کرنا چاہتی ہے؟ کیا صوبائی حکومت کسی خاص وزارت ، محکمے یا ادارے کو ان جنگلات پر قابض ہونے کا جواز فراہم کر رہی ہے؟ یہ انتہائی پر امن علاقہ اور لوگ ہیں کہ جنکی رسائی اپنے املاک تک پہلے طالبان کے قبضے کی آڑ میں ناممکن بنائی گئی تھی اور اب کوئی نیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ آئیئے اس نئے کھیل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ملاکنڈ کے سرسبز پہاڑ، جو قدرتی وسائل، جڑی بوٹیوں، صدیویوں پرانے قیمتی اشجار ، چراگاہوں اور نایاب جنگلی حیات کے خزانوں سے بھرے ہوئے ہیں، گزشتہ ایک عشرے سے آتش فشاں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔
جہاں سیاحوں کے قہقہے اور مقامی لوگوں کی آنکھوں میں ایک چمک ہونی چاہیے تھی، وہاں جلتے درخت ، دھواں، راکھ اور سوختہ جنگلی حیات کے باقیات ہیں ۔ کیا یہ صرف حادثات ہیں یا کوئی سوچا سمجھا کھیل جو منصوبہ بندی کے ساتھ رچایا گیا ہے؟ آگ کے لگانے کے سلسلوں میں جہاں ایک تسلسل ہے وہاں ایک منصوبہ بندی بھی نظر آتی ہے۔یہ اگ کبھی ایک پہاڑ سے دوسرے تک چند گھنٹوں میں پھیل جاتی ہے، تو کبھی ایک ہی وقت میں مختلف علاقوں کو نگل لیتی ہے مگر حیرت انگیز طور پر ریاستی ادارے خاموش رہتے ہیں۔ فائر بریگیڈ غیر حاضر ہوتی ہے اور میڈیا انجان بنتی ہے۔
ملاکنڈ ڈویژن، جس میں دیر، سوات، باجوڑ اور بونیر بھی شامل ہیں، نہ صرف پاکستان کی قدرتی خوبصورتی کا نگینہ ہے بلکہ یہاں طبی اہمیت کی قیمتی جڑی بوٹیاں، بیش قیمت درخت، معدنی ذخائر اور قدرتی چراگاہیں موجود ہیں۔ جڑی بوٹیوں اور منرل سے بھرپور یہاں کا پانی لوگ بطور دوا استعمال کرتے ہیں۔ تعلیم یافتہ، جفاکش اور مخنتی لوگوں کا یہ علاقہ کئی پشتون اور غیر پشتون اقوام پر مشتعمل ہے جو " پشتونولی " کے زرین اصولوں کے تحت ایک پر امن ماحول میں صدیوں سے اکھٹے رہ رہے ہیں۔ ملاکنڈ کے ان پہاڑوں میں متنوع جنگلی حیات پائی جاتی ہے جس میں چرند و پرند اور چوپائے سبھی شامل ہیں۔ پہاڑی بکروں اور دنبوں کے علاوہ یہاں بندروں کے 6 مختلف نایاب اقسام بھی پائے جاتے ہیں۔ چیتا نما جنگلی بلے بھی یہاں بکثرت موجود ہیں۔ مختلف اقسام کے قیمتی ، نایاب اور خوبصورت پرندے ان پہاڑوں اور جنگلوں کا حسن ہے۔ دوسری جانب علاقے کے باشندوں کا ان جنگلوں اور پہاڑوں سے ایک اٹوٹ محبت ہے اور صدیوں سے اس کے تحفظ کے ضامن ہیں۔
ان پہاڑوں پر چرواہوں اور مختلف اقوام کے مقامی لوگوں کا قبائلی رسم و رواج کے مطابق نسلوں سے اجارہ داری رہی ہے جو ایک غیر رسمی خودمختار نظام کے تحت نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔
شائد یہی خودمختاری ممکنہ طور پرمنصوبہ سازوں کے لیے ایک "مسئلہ" بن چکی ہے۔
دنیا بھر میں جنگلات کو جان بوجھ کر آگ لگانے کے لیے بعض مخصوص مواد استعمال کیے جاتے ہیں، اور اگر ملاکنڈ کے پہاڑوں پر یہی فارمولا اپنایا جا رہا ہے تو یہ انتہائی خطرناک سازش ہے۔ ایئے ان کیمیکلز کا جائزہ لیتے ہیں۔
پوٹاشیم پرمیگنیٹ + گلیسرین چند سیکنڈ میں شدید گرمی سے آگ بھڑکا دیتا ہے اردگرد جلے ہوئے پتھروں پر جامنی نشان
پٹرول / ڈیزل فوری شعلے اور طویل جلن کا محسوس بونا اسکے استعمال کی علامتیں ہیں۔ زمین کی چکنائی اور نمی میں بھی میگنیشیم پاؤڈر جلتا ہے، جنگلات میں مؤثر چمکدار سفید راکھ ، نپالم جیسے مادے پلاسٹک یا ربڑ جیسے جلنے والے مادے جو آگ کو پھیلنے سے روکتے نہیں اور زمین پر گاڑھی کالک آگ کا پیٹرن بناتے ہیں۔
یہ سارے نشانات آج تک ملاکنڈ میں جہاں جہاں اگ لگی ہوئی ہے وہاں وہاں یہ موجود ہیں۔
کیا یہ محض اتفاق ہے؟
کئی سوالات ہیں جو اس آگ کو محض ایک قدرتی حادثہ نہیں رہنے دیتے۔ ائیے چند سوالات پھر سے دہراتے ہیں۔
آگ ہر سال ایک ہی موسم میں کیوں لگتی ہے؟ آگ اکثر انہی علاقوں میں کیوں لگتی ہے جو سیکیورٹی کے حوالے سے حساس اور معدنیات اور چراگاہوں کے حوالے سے اہم ہیں؟
کیوں ریاستی ادارے وقت پر نہیں آتے ہیں، نہ تحقیق کرتے ہیں؟ کیوں میڈیا خاموش تماشائی بنا رہتا ہے؟
مقامی لوگ جب شکایت کرتے ہیں، تو نہ صرف یہ کہ انہیں نظرانداز کیا جاتا ہے بلکہ انہی کو مجرم ٹھہرایا جاتا ہے؟ آخر کیوں؟
زہن میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر ممکنہ حکمتِ عملی اور مقاصد کیا ہوسکتے ہیں جو مسلسل یہ تباہی برپا کی جارہی ہے؟
کیا یہ عوام کو تھکا دینے اور زمین پر قبضہ آسان بنانے کی کوئی حکمت عملی ہے؟
کیا بار بار آگ لگا کر عوام کو بےبس کیا جانا مقصود ہے کہ جب جانور، درخت اور زراعت تباہ ہو جائے تو لوگ خود ہی "تحفظ" مانگنے لگتے ہیں — اور پھر حکومت آتی ہے ماحولیاتی تحفظ اور ماحولیاتی تبدیلی کا چورن بیچنے کے نام پر قابض ہونے کے لیئے۔
ملاکنڈ اور پختونخوا کے پہاڑی سلسلوں میں یہ آتشزدگی کا نہ کوئی پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی یہ آخری حادثہ ہوگا۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک آخری دیودار باقی ہے۔
ملاکنڈ محض ایک پہاڑی سلسلہ نہیں ہے بلکہ پشتونوں کے لیے اس کی خصوصی تاریخی، سیاسی، معاشی، ماحولیاتی اور ادبی اہمیت ہے۔ پختونخوا بلکہ ملک بھر کا موسم، سیاحت، زراعت اور معیشت کا دار و مدار ملاکنڈ پر ہے۔ پرانے زمانے کے پاکستان ٹیلیویژن کے خبرنامے کو اگر یاد کیا جائے تو ملک بھر میں کہیں بارش ہو یا نہ ہو، مگر ملاکنڈ ڈویژن میں مستقل گرج چمک، بارش اور برفباری کی پیشگوئی کی جاتی تھی۔ یہی ملاکنڈ کی پہاڑیاں ہیں جنہوں نے سوات کو پاکستان کے سوئزرلینڈ کی حیثیت بخشی ہے۔ یہی ملاکنڈ ڈویژن ہے جو چترال کے ثقافتی ورثے کا امین ہے۔ یہی ملاکنڈ پختونخوا کی سیاست، ادب، تاریخ اور اقتصاد کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ملاکنڈ پشتونوں کے مختلف قبائل کا گلدستہ اور ہماری آبپاشی کے نظام کا سرچشمہ ہے۔ یہی ملاکنڈ ہمارا قومی ورثہ ہے کہ ہزاروں سال کی تاریخ کا رکھوالا ہے۔ یہی ملاکنڈ ہے جس کی سیاحت کی آمدن صوبائی خزانے میں قابلِ قدر اضافہ کرتی ہے۔ ملاکنڈ کی یہ اہمیت قدرتی، فطری اور الٰہی ہے۔ حکومتوں نے اس کی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
گزشتہ 13 سال سے پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے ملاکنڈ کی بربادی کو بطور مشن لیا ہوا ہے۔ باوجود اس کے کہ گزشتہ 13 سال سے پی ٹی آئی بلا شرکت غیرے ملاکنڈ ڈویژن میں بھاری اکثریت سے جیتتی آ رہی ہے، مگر پھر بھی نہ جانے پی ٹی آئی کو اللہ واسطے کا کون سا بیر ملاکنڈ ڈویژن سے ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن کی پہاڑیاں ان 13 سالوں میں مسلسل جلتی رہی ہیں۔ نہ تو آج تک پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو اس پر کوئی شرمندگی محسوس ہوئی ہے اور نہ ہی کبھی قوم سے رسمی معذرت کی گئی ہے۔ اور تو اور، نہ ہی آج تک کوئی انکوائری کی گئی ہے۔
کیا یہ آگ واقعی کوئی قدرتی آفت اور حادثہ ہے؟ کیا یہ آگ کسی دہشت گردانہ کارروائی کا نتیجہ ہے؟ کیا یہ آگ کسی انسانی غلطی، کوتاہی یا بے پروائی کی وجہ سے لگتی رہتی ہے؟ ایسا بالکل اور قطعاً نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں چن چن کر سینکڑوں سال پرانے قیمتی درختوں پر نشانات لگائے جاتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں سرکاری سرپرستی میں ان کی کھلے عام کٹائی ہوتی ہے۔ تیسرے مرحلے میں حکومت کی نگرانی میں ان کی ملک بھر میں سمگلنگ کی جاتی ہے۔ چوتھے مرحلے میں ہر ثبوت کو مٹانے کے لیے منصوبہ بندی کے تحت آگ لگائی جاتی ہے۔ پانچویں مرحلے میں ماحولیاتی تباہی کا راگ الاپتے ہوئے جلی ہوئی پہاڑیوں پر شجرکاری کے لیے فنڈز منظور کیے جاتے ہیں۔ چھٹے مرحلے میں اگلی پہاڑی میں آگ لگائی جاتی ہے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔
تحریک انصاف سے قبل بھی اگرچہ یہی کچھ دیگر حکومتوں میں بھی ایک محدود پیمانے پر کیا گیا تھا، مگر پی ٹی آئی کی مسلسل تیسری حکومت نے تو اسے ایک منظم دھندے کی شکل دی ہے۔ حکومت کو اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہے کہ گندہ ہے پر دھندا ہے، کیونکہ حکومت کے مطابق دھندا ہر دھرم سے بڑا ہوتا ہے۔ اس بڑے پن کا باقاعدہ آغاز خود پاکستان تحریک انصاف کے پیٹرن اِن چیف عمران خان نے جعلی سونامی بلین ٹریز کے پراجیکٹ سے کیا تھا۔ اس پراجیکٹ کے تحت بلین جعلی ٹریز لگائے گئے تھے۔ اصل شجرکاری تو ایک طرف، حتیٰ کہ سرکاری کھاتوں میں بھی بلین ٹریز کے درست اندراجات تک نہیں ہوئے تھے۔ اگلے مرحلے میں جب کہانی زبان زدِ عام ہوگئی تو وسیع پیمانے پر آگ لگا کر کہانی ہی" ختم شد "کر دی گئی۔ ہر شجر کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس حرام خوری میں اتنا فرق ضرور آ گیا ہے کہ پہلے متعلقہ لوگ کم از کم اپنے علاقے اور گھر کو بخشتے تھے۔ چار پہاڑ چھوڑ کر آگ لگاتے تھے۔ اب گھر ہی سے شروعات کی جاتی ہے۔
ضلع مالاکنڈ کے سب سے بڑے پہاڑی سلسلے کو ھزارناؤ کہتے ہیں جو کوٹ مینہ بڑھ ، ٹوٹئ ، درہ ، جھنڈو ، بادامہ سلئ پئے ، نارنجی ،اسپر ، ڈھیری، باٹو اور زنگل پٹو پر مشتمل ہے۔ یہ تمام مذکورہ علاقے یونین کونسل کوٹ اور یونین کونسل سلئ پئے میں آتے ہیں۔
ضلع ملاکنڈ کے گاؤں کوٹ اور ھزار ناؤ کے پہاڑوں میں جہاں اگ لگی ہوئی تھی ائیئے اس علاقے کے بارے میں بھی جانتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہاں قبل مختلف اتشزدگیوں کی تفصیلات کیا ہیں۔
کوٹ منزرے بابا تحصیل اتمانخیل میں واقع ملاکنڈ ڈویژن کا سب سے بڑا یونین کونسل ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اسکی آبادی 35 ہزار سے زیادہ نفوس پر مشتمل ہے۔ یونین کونسل کوٹ منزرے بابا کے 3 ویلج کونسلز ہیں جو ویلج کونسل کوٹ خاص ، ویلج کونسل بانڈہ جات منگئ سپنخڑی اور ویلج کونسل مینہ بڑھ کہلاتے ہیں۔ کوٹ میں پائے جانے والے معدنی ذخائر میں کرومائیٹ، یورینیم ،ماربلز،جپسم جو کامیٹکس میں استعمال ہوتے ہیں اور میگنیزیم اور سفید پتھر بکرہ وغیرہ شامل ہیں۔
اس علاقے میں مختلف اوقات میں جن پہاڑوں اور جنگلات میں آگ بھڑک اٹھی ہے اس میں
یونین کونسل کوٹ اور یونین کونسل سلئ پٹے تحصیل اتمانخیل کے علاوہ مالاکنڈ کے دیگر علاقے جبن ، مالاکنڈ خاص، قالدرہ ، درہ ٹوٹئ ، خانوڑی ، پیرانو ، میخ بند اور الہ وڑئ وغیرہ شامل ہیں۔اس آگ نے اربوں کھربوں کا نقصان کیا ہے ۔ کیا اتنے زیادہ علاقوں میں ، اتنے وسیع پیمانے، شدت اور تسلسل کے ساتھ اتشزدگی کے یہ واقعات اتفاقی ہیں یا منصوبہ بندی کے تحت منظم جرائم ہیں۔ متعلقہ وزارتوں ، محکموں اور اداروں کی کارکردگی کیا ہے اور انکے بےتحاشا فنڈز کی اڈٹ کیا ہے؟ صوبائی حکومت گزشتہ 13 سال سے اس جرم پر کیوں خاموش ہے؟
قوم جواب مانگتی ہے۔
واپس کریں