دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عالمی طاقتوں کی کشمکش اور مشرق وسطیٰ: ایک فکری و سیاسی جائزہ
No image (از : زاہد انصاری )دوسری جنگِ عظیم کے بعد عالمی سیاسی اور معاشی نظام میں ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوئی۔ اقوامِ متحدہ کا قیام، نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ اور انسانی حقوق کے نئے عالمی بیانیے نے ریاستی خودمختاری اور امیگریشن کنٹرول جیسے تصورات کو قانونی اور اخلاقی جواز فراہم کیا۔ 1945 کے بعد ریاستوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی سرحدوں کی حفاظت، سفری دستاویزات کے نظام کا قیام، اور غیر ملکیوں کی نقل و حرکت کو باقاعدہ ضابطے میں لانے کا اختیار حاصل ہوا۔ اس کے نتیجے میں 1950 کی دہائی سے پاسپورٹ، ویزا، اور امیگریشن قوانین کا سخت اطلاق شروع ہوا تاکہ غیر قانونی نقل مکانی، منشیات کی اسمگلنگ، اور عالمی جرائم کو روکا جا سکے۔
انہی تبدیلیوں کے زیر اثر امریکہ نے بھی اپنی امیگریشن پالیسی کو ایک مربوط قانونی ڈھانچے میں ڈھالا، جس کی بنیاد 1965 کے امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ پر رکھی گئی۔ اگرچہ امریکہ کو دنیا بھر میں "امیگرینٹ نیشن" کے طور پر جانا جاتا ہے، لیکن اس کی امیگریشن پالیسی تضادات سے بھرپور رہی ہے۔ ہر سال لاکھوں افراد جنوبی سرحد سے غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوتے ہیں۔ ان میں اکثریت میکسیکو، وسطی اور جنوبی امریکہ کے ان شہریوں کی ہوتی ہے جو یا تو انسانی اسمگلرز کے ذریعے، یا اپنی جان خطرے میں ڈال کر سرحد عبور کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے افراد قانونی ویزا پر آ کر مقررہ مدت کے بعد واپس نہیں جاتے اور امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم ہو جاتے ہیں۔ جعلی دستاویزات، فرضی شادیاں اور اسائلم کی جھوٹی درخواستیں اس غیر قانونی امیگریشن کا مستقل ذریعہ بن چکی ہیں۔
امریکہ میں پناہ کا قانون بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدات اور 1980 کے ریفوجی ایکٹ پر مبنی ہے، جس کے تحت ان افراد کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جنہیں اپنے ملک میں نسل، مذہب، سیاسی نظریے یا کسی مخصوص گروہ سے وابستگی کی بنیاد پر خطرات لاحق ہوں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قانون کا غلط استعمال ایک نفع بخش کاروبار کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ انسانی اسمگلر مہاجرین کو مخصوص بیانات رٹوا کر اسائلم سسٹم کا فائدہ اٹھاتے ہیں، اور عدالت کے فیصلے تک برسوں یہ لوگ امریکہ میں قیام پذیر رہتے ہیں، جس سے نہ صرف امیگریشن سسٹم پر شدید دباؤ پڑتا ہے بلکہ سماجی کشیدگی بھی جنم لیتی ہے۔
2025میں لاس اینجلس میں پھوٹنے والے فسادات اسی پیچیدہ صورت حال کی ایک عملی جھلک تھے۔ 6 جون کو امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئس)نے کیلیفورنیا کے علاقے پیراماؤنٹ میں کریک ڈاؤن کرتے ہوئے سو سے زائد غیر قانونی تارکین وطن کو حراست میں لیا۔ اس کارروائی کے فوراً بعد شدید مظاہرے شروع ہوئے، جو چند گھنٹوں کے اندر تشدد، لوٹ مار، اور جھنڈے جلانے جیسے واقعات میں تبدیل ہو گئے۔ کئی مقامات پر مظاہرین نے امریکی پرچم اتار کر میکسیکو کا جھنڈا لہرا دیا، جس سے مقامی آبادی میں شدید ردعمل پیدا ہوا۔ فاکس نیوز اور سی این این نے ان فسادات کو ایک سیاسی ناکامی قرار دیا، جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیشنل گارڈ کو تعینات کر کے حالات کو قابو میں لانے کی غیر معمولی کوشش کی، جسے کئی ماہرین نے قانونی اور آئینی دائرے سے باہر قرار دیا۔
ریاستی سطح پر اس بحران نے وفاقی و ریاستی اختیارات کی کشمکش کو واضح کر دیا۔ کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزم نے اس صورت حال کو وفاقی حکومت کا پیدا کردہ "مصنوعی بحران" قرار دیا، جبکہ ریپبلکن رہنماؤں نے ریاستی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو قانون سے بالاتر سمجھا جا رہا ہے۔ اس موقع پر ریپبلکن سینیٹر برنی مورینو نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو اب یہ پیغام جانا چاہیے کہ وہ امریکہ چھوڑ دیں۔ فاکس نیوز کے معروف اینکر گریگ گٹفیلڈ نے طنزیہ انداز میں کہا کہ کیا دنیا میں کوئی ایسا ملک ہے جہاں پناہ مانگ کر اس کا جھنڈا جلا کر بھی ہمدردی حاصل کی جا سکتی ہے؟
یہ بحران صرف ایک امیگریشن مسئلہ نہیں بلکہ امریکی سیاست، قوم پرستی، اور ثقافتی شناخت کی گہرائیوں تک سرایت کر چکا ہے۔ ایک طرف سفید فام ووٹرز میں یہ خوف پروان چڑھ رہا ہے کہ ان کی ثقافتی اکثریت خطرے میں ہے اور وہ خود اقلیت میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ دوسری جانب ڈیموکریٹک پارٹی انسانی حقوق، مساوات اور پناہ کے حق کا دفاع کرتی رہی ہے، جس سے دونوں سیاسی جماعتوں کے بیانیے میں شدید تصادم پیدا ہوا ہے۔ امیگریشن کے مسئلے نے اب قومی سلامتی، انسانی ہمدردی، ریاستی خودمختاری اور بین الاقوامی اقدار کے درمیان ایک ایسا تصادم پیدا کر دیا ہے جو صرف قانون سازی سے حل نہیں ہو سکتا۔
ان حالات میں امریکی سیاست میں مزید خلفشار پیدا ہو رہا ہے۔ ایلون مسک اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان حالیہ اختلافات نے اس خلفشار کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ اگرچہ ماضی میں ایلون مسک نے ٹرمپ کی بھرپور مالی اور ابلاغی حمایت کی، لیکن حالیہ دنوں میں انہوں نے ٹرمپ پر سخت تنقید شروع کر دی ہے۔ ٹرمپ نے مسک کے لیے (ڈاج)کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا، جسے سرکاری اداروں میں کٹوتیوں کا نگران بنایا گیا۔ یہ ادارہ اتنا طاقتور ہو گیا کہ اس نے تمام روایتی اداروں کو پسِ پشت ڈال دیا۔ مگر چند روز قبل ایلون مسک نے اس ادارے سے استعفیٰ دے کر کھل کر ٹرمپ کی مخالفت شروع کر دی۔
یہ اختلاف بظاہر نظریاتی ہے، لیکن درحقیقت یہ امریکہ میں جاری معاشی تضادات اور سیاسی دباؤ کی عکاسی کرتا ہے۔ ٹرمپ کا بیانیہ ہے کہ ریاستی اخراجات امریکی معیشت پر بوجھ ہیں، اور انہیں کم کر کے قرضوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ سوچ کوئی نئی نہیں، بلکہ 1980 کی دہائی میں صدر رونالڈ ریگن نے بھی یہی مؤقف اپنا کر بڑے پیمانے پر نجکاری اور فلاحی ریاست کی کٹوتی کا آغاز کیا تھا۔ ان پالیسیوں کا اصل نشانہ صدر فرینکلن روزویلٹ کی 1930 کی دہائی میں متعارف کردہ "نیو ڈیل" اصلاحات تھیں، جنہوں نے امریکہ میں فلاحی ریاست کا تصور متعارف کرایا تھا۔
ریگن کے دور میں جس (ٹرکل ڈاؤن) اکنامکس کو فروغ دیا گیا، اس کے تحت اشرافیہ کو ٹیکس ریلیف دیا گیا اس امید پر کہ وہ زیادہ سرمایہ کاری کریں گے اور اس کا فائدہ عام عوام تک پہنچے گا۔ مگر عملاً یہ دولت اشرافیہ میں مرکوز ہو گئی اور عوام کے لیے نہ روزگار کے مواقع بڑھے، نہ فلاحی سہولیات۔ آج یہی تضاد ٹرمپ اور ایلون مسک کے درمیان کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ اشرافیہ کو مزید ٹیکس ریلیف دیا جائے، چین کے مقابلے کے لیے مقامی صنعت کو فروغ دیا جائے، درآمدات پر ٹیرف عائد کیے جائیں، اور فلاحی اداروں میں مزید کٹوتیاں کی جائیں۔ مگر یہ تمام اہداف آپس میں متضاد ہیں، کیونکہ جب اشرافیہ کو ٹیکس ریلیف دی جاتی ہے تو وہ سرمایہ کاری کی بجائے اپنی دولت ٹیکس پناہ گاہوں میں منتقل کر دیتی ہے، اور جب درآمدات پر ٹیرف لگائے جاتے ہیں تو وہی کمپنیاں متاثر ہوتی ہیں جو بیرونی اشیاء پر انحصار کرتی ہیں۔
ریپبلکن پارٹی کے اندر سے بھی اب آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ مزید کٹوتیاں اور تعلیمی اداروں کو کمزور کرنا نہ صرف غریب عوام بلکہ ریاست کے مستقبل کے لیے بھی خطرناک ہے۔ امریکہ کی سائنسی، تعلیمی، اور انتظامی طاقت ہی اس کی عالمی برتری کا اصل ذریعہ رہی ہے، اور اگر ان شعبوں کو نقصان پہنچایا گیا تو امریکہ کا زوال ناگزیر ہو جائے گا۔ ٹرمپ کی طرف سے پیش کردہ نئے اخراجاتی بل نے ان ہی تضادات کو اجاگر کیا، جس میں اشرافیہ کو مزید ریلیف، غریبوں کے لیے میڈیکل سہولتوں میں کمی، اور دفاع و سرحدی سیکیورٹی کے بجٹ میں اضافہ شامل تھا۔ اس بل کے نتیجے میں امریکی معیشت پر مزید ڈھائی کھرب ڈالر کا قرض چڑھنے کا خدشہ ہے۔
ایلون مسک نے اس بل کی مذمت کرتے ہوئے اسے (ڈیبٹ سلیوری)یعنی قرض کی غلامی قرار دیا اور عوام سے اپیل کی کہ وہ اس استحصالی نظام کے خلاف آواز بلند کریں۔ اس پر ٹرمپ نے طنزیہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر واقعی بچت کی ضرورت ہے تو پھر ٹیسلا کو دی جانے والی ریاستی مراعات بھی بند کر دی جائیں۔ یہ بیانات امریکی اشرافیہ کے اندرونی تضادات اور زوال پذیر نظام کی نشاندہی کرتے ہیں، جہاں ہر طاقتور گروہ دوسرے کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔
یہ صورت حال اس حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے کہ امریکہ ایک زوال پذیر سامراجی قوت بن چکا ہے یا بننے کے قریب ہے، جو معاشی بحران کے بعد اب شدید سیاسی، ادارہ جاتی اور سماجی انتشار کا شکار ہو چکا ہے۔ تاہم، اس کے پاس اب بھی وہ عسکری طاقت موجود ہے جو دنیا کو ایک نئی عالمی جنگ کی دہلیز تک پہنچا سکتی ہے۔ جب وہ اقتصادی محاذ پر چین کا سامنا کرنے میں ناکام ہوتا ہے، تو اپنی عسکری بالادستی کو ایک متبادل ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ یوکرین میں روس کے خلاف نیابتی جنگ ہو یا مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے خلاف محاذ آرائی، ان تمام اقدامات کا مقصد چین کے اثر و رسوخ کو محدود کرنا اور دنیا کی توجہ امریکی زوال سے ہٹانا ہے۔
اسرائیل کے ذریعے ایران کو اشتعال دلا کر جنگ کی طرف دھکیلنا اسی سامراجی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو ایران کے خلاف ممکنہ پیشگی حملے کی حمایت، اور بعد ازاں ایران کی عسکری تنصیبات پر ہوائی حملوں میں تکنیکی مدد، نہ صرف خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش ہے بلکہ ایک امن پسند اور خودمختار ریاست کو جنگ میں گھسیٹنے کی دانستہ کوشش بھی ہے۔ ایران کی خطے میں چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی اقتصادی اور سفارتی قربت، امریکہ کے لیے ایک ناقابلِ برداشت چیلنج بن چکی ہے، جسے وہ فوجی کشیدگی کے ذریعے غیر مؤثر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ان اقدامات کا مقصد صرف مشرقِ وسطیٰ کو عدم استحکام سے دوچار کرنا نہیں، بلکہ بحر ہند، وسطی ایشیا اور چین کی مغربی سرحدوں تک امریکی اثر کو دوبارہ قائم کرنا ہے تاکہ اس کے زوال کا پردہ وقتی طور پر ڈھانپا جا سکے۔ لیکن اس نوعیت کی خارجہ پالیسی نہ صرف خطرناک ہے بلکہ عالمی امن، معاشی استحکام اور علاقائی خودمختاری کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ بن چکی ہے۔ اگر عالمی برادری نے اس عسکری جارحیت کے خلاف واضح مؤقف اختیار نہ کیا، تو دنیا ایک اور بڑی جنگ کے دہانے پر جا کھڑی ہو گی، جس کے نتائج نہ صرف تباہ کن ہوں گے بلکہ انسانیت کی اجتماعی بقا کے لیے بھی سنگین خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس زوال پذیر قوت سے فاصلہ رکھنا دانش مندی ہے۔ امریکہ کی اندرونی کشمکش اب کسی ایک ملک یا خطے کی نہیں رہی، بلکہ وہ دنیا بھر کو اپنی جنگوں اور تضادات میں گھسیٹنے پر تلا ہوا ہے۔ ایسے میں پاکستان جیسے ممالک کو چاہیے کہ وہ سامراجی وابستگیوں سے نکل کر خودمختار، صنعتی اور عوامی ترقی پر مبنی حکمتِ عملی اختیار کریں، ورنہ اس بار نہ امریکہ مدد کو آئے گا اور نہ ہی خود اپنے زخموں سے بچ پائے گا۔
واپس کریں