دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیاست میں بلیم گیم اور بدتہذیبی کا کلچر،ذمہ دار عمران خان
No image بدقسمتی سے گزشتہ ایک دہائی سے ہماری سیاست میں بلیم گیم اور بدتہذیبی کا کلچر درآیا ہے جس کا بانی پی ٹی آئی کے قائد عمران خان کو قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ انکی 2011ءسے اب تک کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو اس میں تہذیب و شائستگی اور ادب آداب کا شائبہ بھی نظر نہیں آئیگا۔ اسکے برعکس اس پارٹی کے پلیٹ فارم پر ہر سیاسی مخالف کی عامیانہ انداز میں پگڑی اچھالنا اور ادارہ جاتی سربراہوں کے نام بگاڑ کر ان سے مخاطب ہونا‘ عوامی مقبولیت میں اضافے کی سیڑھی سمجھ لیا گیا جبکہ اس سیاست میں انتہاءیہ ہوئی کہ عمران خان نے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اقتدار سے فارغ ہونے کے بعد ملک کی آزادی و خودمختاری اور اسکے تحفظ کے ذمہ دار اداروں کو بھی اپنی ذات سے ہیچ سمجھنا شروع کردیا اور انکی پارٹی کے اندر بھی یہ چلن اختیار کرلیا گیا کہ اگر ہمارا قائد اقتدار میں نہیں تو پھر ہمارے لئے پاکستان اور اسکے اداروں کی بھی کوئی اہمیت نہیں جبکہ خود عمران خان نے بھی پاکستان اور اسکی فوج کے تین ٹکڑے ہونے کی بات کرکے اپنی ذات سے اوپر ہر چیز کی نفی کے راستے پر اپنے پارٹی ورکروں کو لگا دیا۔
گزشتہ سال 9 مئی کے واقعات اسی سوچ کا شاخسانہ تھے جبکہ پی ٹی آئی کی اب تک کی سیاست یہی گل کھلا رہی ہے جس میں پی ٹی آئی کے بانی قائد کی جانب سے 24 نومبر کی فائنل کال کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پی ٹی آئی کے کارکن بالخصوص خیبر پی کے سے آنے والے جتھے جن میں افغان شہری بھی شامل تھے‘ 9 مئی والے واقعات کو دہرانے کیلئے باقاعدہ اسلحہ‘ گولہ بارود‘ پتھروں‘ ڈنڈوں سے لیس ہو کر اسلام آباد پر دھاوا بولنے کی نیت سے آئے جس کی سکیورٹی اداروں نے بھی تصدیق کی اور سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیو کلپس بھی اس مسلح جتھہ بندی کی گواہی دے رہی ہیں۔
اسلام آباد انتظامیہ کے مطابق 24 نومبر کی رات ڈی چوک میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے کئے گئے اپریشن میں جہاں افغان باشندوں سمیت 954 پی ٹی آئی ورکروں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں وہیں انکے قبضے سے 43 خطرناک ہتھیار بھی برآمد ہوئے جبکہ ڈی چوک تک آتے آتے ان مسلح جتھوں نے پولیس اور رینجرز پر حملے کرکے چار سکیورٹی اہلکاروں کوشہید اور دو سو کے قریب اہلکاروں کو زخمی کیا۔ اس مسلح جتھہ بند احتجاج میں اسلام آباد انتظامیہ کے بقول 164 سی سی ٹی وی کیمرے توڑے گئے‘ سکیورٹی اداروں کی بیسیوں گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا جبکہ مجموعی طور پر ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا اور افراتفری پیدا کرنے والے ایسے احتجاجوں کے باعث ملک کی ساکھ کو الگ نقصان پہنچا چنانچہ ریاستی اتھارٹی کی جانب سے سکیورٹی اداروں کے ذریعے مسلح احتجاجیوں کو منتشر کرنا مجبوری بن گیا۔ اس عمل میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے مکمل احتیاط اور صبر و تحمل سے کام لیا گیا تاکہ پی ٹی آئی کو لاشوں پر سیاست کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی جانب سے اپنے متعدد پارٹی کارکنوں کے جاں بحق ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے مگر اب تک کسی ایک لاش کا بھی کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا۔
اب یقیناً پی ٹی آئی کی قیادت کے پاس اپنی پارٹی کی ازسرنو صف بندی کا موقع ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنی انتشاری فسادی سیاست سے رجوع کرے اور قومی افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرکے سلجھاﺅ کی طرف آئے بصورت دیگر پی ٹی آئی اور اسکی قیادت کیلئے مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
واپس کریں