دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ریکوڈک، سٹیل ملز، ڈیم فنڈ، 'آزاد عدلیہ' نے معاشی مفاد کو شدید نقصان پہنچایا۔خرم حسین
No image آج بہت سے لوگ عدلیہ کی آزادی پر ایک چیک لگنے پر تاسف کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن قریب ڈیڑھ دہائی تک ایسے فیصلوں کے بعد جو قانون سے زیادہ عناد، کم علمی اور انا کی بنیاد پر دیے گئے تھے، یہ لوگ اور کیا توقع رکھے بیٹھے تھے؟
شاید یہ سپریم کورٹ کے ایک مقبول ترین چیف جسٹس کا ریکو ڈک کا فیصلہ یاد کرنے کے لئے انتہائی موزوں وقت ہے۔ یا پھر اس ڈیم فنڈ کی یاد تازہ کرنے کا جس پر تنقید کرنے والوں کو بھی غداری کے مقدموں سے ڈرایا جاتا تھا؟
یاد ہے نا وہ عجیب و غریب تماشہ جو سرخیاں بنانے کے اپنے تمام پیش روؤں سے زیادہ خواہشمند ایک چیف جسٹس نے لگایا تھا؟ یا پھر ایک مضمون اس چیف جسٹس کے متعلق ہو جائے جس کے سر پر شاہراہِ فیصل پر ایک عمارت گرانے کا بھوت سوار ہو گیا تھا کہ جس میں بسنے والے خاندان راتوں رات بے گھر ہو گئے اور آج بھی بدلے میں ملنے والے معاوضے کا انتظار کر رہے ہیں؟ کتنے لوگوں کو وہ چیف جسٹس یاد ہے جس نے لوگوں سے ایک ڈیم بنانے کے لئے عطیات بھی اکٹھے کیے لیکن اس کے سر پر Punjab Kidney & Liver Institute بند کرنے کی دھن بھی سوار تھی؟
ہم میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں کہ کان کنی کے ایک پروجیکٹ کے لئے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کیسے لائی جاتی ہے، یا ایک بہت بڑے اسپتال کے لئے جو مہنگی ترین بیماریوں کا مفت علاج فراہم کرتا ہے؟ کتنے لوگ جانتے ہیں کہ انفراسٹرکچر منصوبوں میں سرمایہ کاری کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے یا اگر حکومت کے کسی فیصلے سے کچھ افراد کا گھر بار چھن جائے تو ان کو معاوضہ کیسے ادا کیا جاتا ہے؟ ہم میں سے کتنوں کو اندازہ ہے کہ وکلا تحریک کے بعد سے ججز کی بے وقوفیوں کی فہرست کس قدر طویل ہے؟
میرے وکلا دوست اس تاریخ کو معمول کی بات گردانتے ہیں یا پھر ایسے بے معنی واقعات کا ایک سلسلہ کہ جب کچھ ججز نے وقتی طور پر ایسے فیصلے دے ڈالے جو غلط نکلے۔ مگر میں ان واقعات کو ایک مختلف انداز سے دیکھتا ہوں۔ یہ وہ لمحات ہیں جنہوں نے وکلا تحریک سے جنم لینے والی ' آزاد عدلیہ' کی حقیقت دنیا کو دکھائی۔
اور ہم نے ایک ایسی عدالتی قیادت دیکھی جو اپنے کام سے زیادہ انتظامیہ کے امور میں مداخلت میں زیادہ دلچسپی رکھتی تھی۔ پالیسی سے متعلق تُکے لگانا، چھوٹی چھوٹی ٹیکنیکل غلطیوں پر وزرائے اعظم کو نااہل کرنا، چینی کی قیمتیں طے کرنا یا قدرتی گیس پر سبسڈی بڑھانے کے مطالبات کرنا، دو صوبوں کے ان کے منفی اثرات سے متعلق شدید خدشات کے باوجود بڑے ڈیموں کے لئے مہم چلانا اور بے حساب ایسے احمقانہ فیصلوں کی لڑی ہے جن کے منفی نتائج سے ہم آج بھی جوجھ رہے ہیں حالانکہ وہ افراد اطمینان سے ریٹائر ہو کر گھر جا چکے ہیں جنہوں نے یہ فیصلے کیے تھے۔
ریکو ڈک کے فیصلے کو لے لیجیے۔ اس کے بعد سے آج تک کسی نجی سرمایہ کار نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی حامی نہیں بھری جب تک انہیں یہ یہ یقین دہانی نہیں کروا دی جاتی کہ پاکستان کے اپنے قوانین، عدالتیں، ٹیکس حکام اور ادائیگی کے طریقہ کار ان پر لاگو نہیں ہوں گے۔
تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے پاس بھی اتنے وسائل نہیں کہ یہ اپنے انفراسٹرکچر کے منصوبوں کو خود سے فنڈ کر سکے، اور کوئی غیر ملکی سرمایہ کار اتنی بڑی رقم پر خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تھا، لہٰذا ملک کے پاس ایک ہی آپشن تھی جب 2010 کی دہائی کے وسط میں اس نے چین سے اس شعبے میں سرمایہ کاری کروائی۔ چینیوں نے بھی کوئی بھی ڈیل کرنے سے پہلے انہی یقین دہانیوں کا مطالبہ کیا۔ اس سب کی ذمہ داری محض ریکو ڈک پر نہیں ڈالی جا سکتی لیکن اس کا بہرحال ایک بہت بڑا کردار تھا۔
اور پھر ہمیں یاد ہی ہے کہ مقدمے بازی میں کیسے ہمیں لاکھوں ڈالر سے ہاتھ دھونا پڑے، 6 ارب ڈالر کا جرمانہ ہوا اور بیرک گولڈ کے ساتھ ایک اور معاہدہ کرنا پڑا لیکن اس بار فرق یہ تھا کہ یہ ڈیل پاکستان کی سپریم کورٹ کے دائرۂ اختیار سے ہی باہر رکھی گئی۔
اس فیصلے کے پاکستان میں سرمایہ کاری کے ماحول پر خوفناک نتائج مرتب ہوئے لیکن اس بارے میں صرف وہی لوگ جانتے تھے جو غیر ملکی سرمایہ کاری سے متعلق خبروں پر نظر رکھتے ہیں، لہٰذا یہ ہمارے قومی مباحث کا کبھی حصہ نہیں بن سکا کیونکہ یہاں تو ہر وقت بحث قانونی پیچیدگیوں، ججز کے درمیان گرما گرمی کی چٹ پٹی خبروں اور عدالتی کارروائی کی مسلسل کوریج سے متعلق ہو رہی ہوتی ہے۔
معیشت پہلے ہی وکلا تحریک سے پہلے کے عدالتی فیصلوں کے باعث اپاہج تھی۔ ایک سٹیل ملز کا فیصلہ تھا جس نے نجکاری کے عمل کو ہی روک دیا۔ ایک اخباری خبر کی بنیاد پر سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ بھی تھا جس نے LNG کے ایک لمبے عرصے کی ڈیل کو ختم کروا دیا۔ اس فیصلے نے پاکستان کے توانائی کے بحران کو شدید کر دیا کیونکہ قریب اسی زمانے میں ہمارے اپنے قدرتی گیس کے ذخائر تیزی سے کم ہونا شروع ہو چکے تھے۔ جن لوگوں کی یادداشت کمزور نہیں انہیں 2010 سے 2015 کے درمیان گیس کی کمیابی یاد ہی ہوگی۔
اب ایک بات سمجھ لیجیے۔ ان تمام کیسز میں عدالت نے کرپشن کا الزام لگایا۔ ان میں سے کسی بھی کیس میں لیکن عدالت کرپشن کا کوئی ثبوت نہ ڈھونڈ سکی۔ ان تمام فیصلوں کے دوررس نتائج تھے جن کا تخمینہ کھربوں روپیوں میں ہوگا۔ لیکن اس سے ہم نے کچھ سیکھا نہیں۔ 2019 تک بھی عدالت ایک LNG ڈیل میں مداخلت کی کوشش کر رہی تھی جو پاکستان پچھلی ڈیل کے افسوسناک انجام کے بعد حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔
وکلا تحریک کے بعد پاکستان کو ایک آزاد عدلیہ میسر آئی تھی۔ لیکن ان ججز نے اس آزادی کا کیا کیا؟ کیا عام شہری کے ساتھ ان عدالتوں میں روا رکھے جانے والے سلوک میں کوئی بہتری آئی؟ کیا بیک لاگ میں کوئی کمی آئی؟ کیا فیصلے جلدی آنا شروع ہو گئے؟ کیا فیصلوں کے خلاف اپیلوں میں کوئی کمی آئی؟ کیا عدلیہ کے بنیادی کام یعنی قانون کے مطابق انصاف دینے سے متعلق اشاریوں میں عدلیہ کی آزادی کے بعد کوئی بہتری آئی؟
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ وکلا تحریک سے جنم لینے والی آزاد عدلیہ نے پاکستان کی قدرتی گیس کے ذخائر کم ہونے یا ریاستی ملکیت میں موجود کاروباری اداروں کی نجکاری جیسے مشکل چیلنجز سے ڈیل کرنے کی اہلیت کو کم کرنے میں دوسری کسی بھی قوت کے مقابلے میں زیادہ کردار ادا کیا ہے۔ اور اس تمام عرصے میں یہ عدالتیں اپنے کام کرنے کے طریقہ کار میں ایسی کوئی تبدیلی لانے کی کوشش کرتی دکھائی نہیں دیں جس سے سائلین کے لئے انصاف کے حصول میں کوئی آسانی پیدا ہوتی۔
آج ان میں سے بہت سے لوگ عدلیہ کی آزادی پر ایک چیک لگنے پر تاسف کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن قریب ڈیڑھ دہائی تک ایسے فیصلوں کے بعد جو قانون سے زیادہ عناد، کم علمی اور انا کی بنیاد پر دیے گئے تھے، یہ لوگ اور کیا توقع رکھے بیٹھے تھے؟
واپس کریں