پپٹرول کی آئے دن بڑھتی ہوئی قیمتوں سے عام شہری سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ اگر آپ روزانہ کام پر جاتے ہیں، بچوں کو اسکول چھوڑنے جاتے ہیں یا ہفتہ وار خریداری کے لیے گاڑی استعمال کرتے ہیں، تو یقیناً آپ کی کمائی کا بڑا حصہ گاڑی میں پپٹرول ڈلوانے میں ہی خرچ ہوجاتا ہوگا۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کی گاڑی ایک لیٹر پپٹرول میں 12 کلومیٹر چلتی ہے اور آپ روزانہ 40 کلومیٹر سفر کرتے ہیں، تو آپ کو ایک ماہ میں تقریباً 100 لیٹر پپٹرول کی ضرورت ہوگی۔
اس اعتبار سے 269 روپے فی لیٹر پپٹرول کا ماہانہ خرچہ 26,900 روپے تک پہنچ جاتا ہے۔ البتہ اب اس پریشانی کا حل الیکٹرک موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی صورت میں موجود ہے۔
حال ہی میں امریکی کھرب پتی سرمایہ کار وارن بفیٹ کے حمایت یافتہ چینی الیکٹرک وہیکل جائنٹ بائی یور ڈریم (بی وائے ڈی) نے اعلان کیا ہے کہ 2030 تک پاکستان میں فروخت ہونے والی گاڑیوں میں سے نصف برقی گاڑیاں ہوں گی۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے اگست 2023 میں تین ماڈلز لانچ کیے جا چکے ہیں اور اس سال کے آخر تک گاڑیاں فروخت کے لیے پیش کی جائیں گی۔
بی وائے ڈی پاکستان کے ترجمان اور میگا موٹرز کے سی ای او کامران کمال کا کہنا ہے کہ ان کا ہدف 2030 تک پاکستان میں 50 فیصد تک الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال میں اضافے کو ممکن بنانا ہے۔
البتہ کسی دعوے سے قطع نظر اس موضوع پر حقائق کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ میں ایک بڑا چیلنج انفراسٹرکچر کی کمی ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے چارجنگ اسٹیشنز کی کمی اور بجلی کی قلت جیسے مسائل اس ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
الیکٹرک گاڑیوں سے جڑے چیلنجز اور امیدیں
پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ان کی قیمت ہے۔ فی الحال الیکٹرک گاڑیاں مکمل طور پر اسمبل ہو کر پاکستان آتی ہیں، جس کی وجہ سے ان پر زیادہ درآمدی ڈیوٹی لاگو ہوتی ہے۔
کامران کمال کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی کی بنیادی توجہ پاکستان میں مقامی طور پر اسمبل کی جانے والی گاڑیاں متعارف کروانے پر ہے تاکہ درآمدی مسائل اور زیادہ ڈیوٹی کے مسائل سے بچا جا سکے۔ یہ ایک بڑا قدم ہو گا، کیونکہ مقامی سطح پر تیار کی جانے والی الیکٹرک گاڑیاں عوام کے لیے زیادہ سستی ہوں گی، اور اس سے الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ میں مدد ملے گی۔
بجلی کی لاگت
الیکٹرک بائیک یا گاڑی کے لیے بجلی کا خرچ پٹرول کے مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک عام الیکٹرک بائیک کو مکمل چارج کرنے پر تقریباً 3 سے 5 یونٹ بجلی درکار ہوتی ہے۔ اگر ایک یونٹ کی قیمت 30 روپے ہو تو آپ کی ایک دن کی بجلی کی لاگت تقریباً 150 روپے ہوگی، جب کہ پٹرول گاڑی پر آپ کو روزانہ ہزاروں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
اسی طرح ایک الیکٹرک گاڑی کو مکمل چارج کرنے پر تقریباً 15 سے 20 یونٹ بجلی درکار ہوتی ہے، جو کہ تقریباً 600 روپے تک ہو سکتی ہے۔ یہ قیمت پٹرول کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ اس سے آپ کو ہر ماہ پٹرول کی لاگت میں ہزاروں روپے کی بچت ہوگی۔
الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ کا جائزہ
پاکستان میں برقی گاڑیاں ابھی تک زیادہ عام نہیں ہو سکیں۔ اس کی بنیادی وجہ ان کی زیادہ قیمت اور انفراسٹرکچر کی کمی ہے۔ اگرچہ حکومت نے الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کے لیے کچھ پالیسیاں بنائی ہیں، مگر ابھی تک چارجنگ اسٹیشنز کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
الیکٹرک گاڑیوں کی قیمت بھی پاکستان میں کافی زیادہ ہے۔ عام صارف کے لیے ان گاڑیوں کو خریدنا مشکل ہوتا ہے کیوں کہ ان کی ابتدائی قیمت پٹرول گاڑیوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک الیکٹرک گاڑی کی قیمت 40 لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے جب کہ پٹرول گاڑیاں 15 سے 20 لاکھ میں دستیاب ہوتی ہیں۔
چارجنگ انفراسٹرکچر کا مسئلہ
پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ چارجنگ اسٹیشنز کی کمی ہے۔ بڑے شہروں میں چند چارجنگ اسٹیشنز موجود ہیں، لیکن ملک کے دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں یہ سہولت تقریباً ناپید ہے۔ اس کے برعکس دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک جیسے کہ ناروے، نیدرلینڈز اور جرمنی میں چارجنگ کا بہترین نظام موجود ہے۔
برقی گاڑیوں کن ممالک میں عام ہیں؟
دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں الیکٹرک گاڑیاں نہ صرف مقبول ہو چکی ہیں بلکہ وہاں کی سڑکوں پر ان کی تعداد پٹرول گاڑیوں سے بھی زیادہ ہے۔ ناروے، نیدرلینڈز، جرمنی، چین اور امریکہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
نارویجن روڈ فیڈریشن کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق ناروے میں 80 فیصد برقی گاڑیاں استعمال کی جاتی ہیں اور یہ تناسب دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کی وجہ چارجنگ اسٹیشنز کا ہر جگہ یہاں تک کہ دیہی علاقوں میں بھی دستیاب ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کی زیادہ تر آبادی الیکٹرک گاڑیاں استعمال کرتی ہے۔
اسی طرح یورپین آلٹرنیٹیو فیولز آبزرویٹوری کے مطابق نیدرلینڈز میں یورپ بھر میں سب سے زیادہ چارجنگ اسٹیشنز کی تعداد موجود ہے۔ ملک میں تقریباً ہر 1۔5 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چارجنگ اسٹیشن دستیاب ہے، جو الیکٹرک گاڑیوں کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ہے۔
بھارت میں برقی گاڑیوں کا تناسب
اگر بات کی جائے پڑوسی ملک بھارت کی تو وہاں بھی الیکٹرک گاڑیوں کے شعبے میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔ بھارتی حکومت نے 2030 تک الیکٹرک گاڑیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے جس کی وجہ درآمدات پر کم سے کم انحصار اور بڑھتی ہوئی آلودگی پر قابو پانا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق 2023 کے آخر تک بھارت میں تقریباً 12 لاکھ الیکٹرک گاڑیاں سڑکوں پر موجود تھیں، جن میں برقی موٹر سائیکل اور کاریں شامل ہیں۔
اس کے علاوہ بھارت کی مرکزی حکومت کی فریم ورک فار الیکٹرک وہیکل پالیسی اور وزارت برقی اور نئی توانائی کی رپورٹ میں 2030 تک 30 فیصد الیکٹرک گاڑیاں سڑکوں پر لانے کا ہدف مقرر کیا ہے، جو کہ کافی بڑا ہدف ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کی مرکزی حکومت اور کئی ریاستیں الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کے لیے مختلف مراعات اور سبسڈیز فراہم کر رہی ہیں۔
پاکستان کے لیے مستقبل کے مواقع
پاکستان میں بھی الیکٹرک گاڑیوں کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے اگر حکومت اور نجی ادارے مل کر اس شعبے کو فروغ دیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ چارجنگ انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے، عوام میں آگاہی پھیلائی جائے، اور الیکٹرک گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
حکومت کو اس حوالے سے ایک جامع پالیسی بنانی ہوگی تاکہ سرمایہ کار الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت میں سرمایہ کاری کریں۔ اس کے علاوہ عوام کو اس بات کی طرف راغب کرنا ہوگا کہ وہ پٹرول گاڑیوں کے بجائے الیکٹرک گاڑیوں کا انتخاب کریں تاکہ وہ نہ صرف اپنے پیسے بچا سکیں بلکہ ماحولیاتی آلودگی میں بھی کمی کا باعث بن سکیں۔
واپس کریں