احتشام الحق شامی۔ دس روپے کی چیز کو پندرہ روپے مہنگا کر کہ پھر ایک روپیہ سستا کرنے پر سرکاری تالیاں بجوانا سرمایہ دارانہ نظام کا ایک معروف طریقہِ کار ہے۔سابقہ اور موجودہ پی ڈی ایم حکومت میں بھی ہم جاری یہی سرکس دیکھ رہے ہیں۔پٹرول،ڈالر یا پھر بجلی و گیس کے نرخ ہوں، ایسی ہی تماش بینی چل رہی ہے باالفاظِ دیگر مہنگائی اور بے روزگاری سے متاثرہ بھپری عوام کو وقفہ وقفہ سے آکسیجن دیتے رہنا ہے تا کہ وہ گھروں سے نکل کر سرمایہ داروں کے گریبان نہ پکڑ سکے۔
دوسری جانب سرکار نے اپنے خرچے کم نہ کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔کفایت شعاری کے لاکھ دعوں کے باوجود تا حال وہی پرانے اللے تللے اور عیاشیاں جاری و ساری ہیں۔ایک ایک وزیر کے پاس تین تین بڑی لگثری گاڑیاں ہیں اور سرکاری پروٹوکول الگ۔دوسرا یہ کہ ہمارے حکمرانوں نے چونکہ نہ سیکھنے کی بھی قسم کھائی ہوئی اس لیئے اپنے ہمسایہ ملک بھارت سے کفایت شعاری اور سادگی سے حکومت چلانے میں بھی اپنی توہین محسوس کرتے ہیں۔کہتے ہیں کوئی اب آسانی کے ساتھ قرضہ بھی نہیں دیتا۔اگلے ہمارے حکمرانوں اور اشرافیہ کے اللے تللے اور شاہانہ رویے دیکھ کر کیسے یقین کریں کہ ہمیں بھی کسی قرضے کی ضرورت ہے۔ حکمرانوں کا یہ سرکس اب ختم کرنا ہو گا۔
بھارت کا مرکزی وزیر بھی بھارت میں ہی بنی ہوئی صابن دانی جیسی گاڑی استعمال کرتا ہے،سادہ اور اپنا علاقائی لباس زیب تن کرتا ہے اورکسی قسم کا دیگر نخرہ بھی نہیں کہ وہ دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت کا وزیر ہے، اس کا قومی خزانہ لبالب بھرا ہوا ہے اور اس کا ملک قرضہ دینے والے ممالک کی فہرست میں بھی شامل ہے۔
قصہ مختصر کہ آپ لاکھ قلابازیاں لگا لیں،خزانے کے وزیر، مشیر بھی بار بار بدل لیں،قوم پر بھاری ٹیکس بھی لگا دیں،ملکی معیشت بہتر ہونے والی نہیں تا وقطیہ کہ جب تک آپ اپنے شاہانہ خرچے ختم نہیں کریں گے اور اپنے پاوں زمین پر نہیں رکھیں گے اور یہی بات عالمی مالیاتی ادارے ہمیں سمجھا سمجھا کر تھک گئے ہیں۔
اگر ہمارے معیشت دانوں کی یہی ایک پالیسی برقرار رہی کہ اب کی بار قرضہ کس ملک سے اور کتنا لینا ہے اور پھر اس قرضے کا سود ادا کرنے کے لیئے کی عوام پر کتنے ٹیکس لگانے ہیں تو وہ دن اب زیادہ دور نہیں ہو گا جب ہمیں اپنے ایٹمی اثاثے عالمی ساہو کاروں کے پاس گروی رکھوانے پڑیں گے۔
واپس کریں