مستشرقین (یعنی اسلام کی تاریخ پرکام کرنے والے مغربی تاریخ دان) انکاخیال ہے کہ مسلمانوں کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں تھا بلکہ انہوں نے دوسرے ادیان سے سب کچھ نقل کیا (حتی کہ اپنی عبادات بھی)-
وہ کہتے ہیں کہ مسلمان جب مدینہ میں آئے تویہودیوں سے ختنہ والی رسم نقل کی، سورکوحرام قراردینے والی بات لی، اذان کا طریقہ ان سے لیا حتی کے نماز روزے کا طریقہ بھی ان سے نقل کیا ( یہودی بھی قیام کی حالت میں عین اہلحدیث حضرات کی طرح سینے پرہاتھ باندھتے ہیں)- وغیرہ وغیرہ-
یہودی دن میں تین نمازیں پڑھتے تھے تومسلمان بھی تین نمازیں ہی پڑھتے تھۓ- بلکہ شروع میں تو انکے اکٹھے ہی پڑھتے تھے- (آپ کو کبھی خیال آیا کہ مدینہ میں یہود کے تین بڑے قبیلے آباد ہونے کے باوجود، وہاں انکے کسی "سینیگاگ " کا نشان کیوں نہیں ملتا؟ کبھی اس پرتحقیق کریں تو شاید "مسجد قبلتین" کا پس منظربھی معلوم ہوجائے)-
پھرجب مسلمانوں نے پہلی صدی میں ایران فتح کرلیا تو"زرتشت مذہب"(مجوس) کی عبادات کو بھی گود لے لیا-(عراقی مجوسی دن میں پانچ نمازیں پڑھتے ہیں)- مسلمان قوم کے پاس فراخی کازمانہ تھا اور"ویہلے آدمی" کو جتنی زیادہ رسومات دی جائیں، اسکا وقت اچھا کٹ جاتا ہے- بہرحال، تیسری صدی ہجری تک تقریبا" تمام عالم اسلام میں روزانہ پانچ نمازوں کا رواج ہوچکا تھا-(ایرانی مجوسی روزانہ آٹھ نمازیں پڑھتے تھے تواشراق، چاشت اوراوابین نامی روزانہ نمازیں بھی سجسٹ کردی گئی تھیں)-
تیسری صدی ہجری میں جاکرمسلمانوں کوخیال آیا کہ اسلام کی سب سے بڑی عبادت یعنی نماز بارے قرآن میں تو روزانہ تین وقت کا حکم ہے- پس ان پانچ نمازوں کو ثابت کرنے کےلئے بخاری شریف میں ایک حدیث بناکر" ریورس انجیرنگ " کی گئ-
بھائ دوستو!
اوپرجو کچھ بیان کیا گیا، آپ اسے خرافات سمجھ کرنظرانداز کردیں- ہم مسلم سیکولرز، جب قرآن کے علاوہ کسی البخاری یا الکافی نامی کتاب کو اسلام کا حوالہ نہیں مانتے تو بھلا کسی مستشرق کی تحقیق کو کیوں اپنے لئے سند مانیں گے؟-
مزید یہ کہ اگرمسلمانوں نے یہود ونصاری سے کچھ نقل کیا بھی ہے توہم عرض کرتے ہیں کہ دین ابراہیمی اصل میں ایک ہی تھا- اس میں کیا قباحت ہے؟- (ہمارے خیال میں دین اسلام ، دین ابراہیمی کوہی اصل شکل میں واپس لانے کیلئے نازل ہوا تھا)-
البتہ مسلم سیکولرزکا سٹانس یہ ہے کہ قرآن، نہ تو"ناقص کتاب" ہے کہ اس میں اسلام ادھورابیان ہوا ہواورنہ ہی "مبہم کتاب" ہے کہ اس کوسمجنے کیلئے کسی اورکتاب کی بیساکھی کی ضرورت ہو-
ہم یہ بات کہنا" قابل فخر" نہیں بلکہ "قابل شرم"سمجھتے ہیں کہ قرآن میں سینکڑوں مرتبہ نماز کا حکم دینے والے خدا سے یہ بھول ہوگئی کہ قرآن میں نمازکی تفصیل نہیں بتائ- قرآن میں واضح طورپرلکھا ہے کہ روزانہ تین نمازیں فرض کی گئی ہیں- دن کے وقت کوئ نمازفرض نہیں سوائے جمعہ کے دن کے اورہرنماز کی صرف دورکعت ہوتی ہیں- نماز میں کیا پڑھنا ہے؟ یہ بھی قرآن میں درج ہے-(ویسے تو خود بخاری میں حدیث 350 ، "کتاب الصلواۃ "میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ شروع زمانہ اسلام میں دورکعت نماز ہی پڑھی جاتی رہی تھی)-
اگرکوئ مسلمان روزانہ پنج وقتہ نماز پڑھتا ہے تواچھی بات ہے- نمازمیں خیرہی خیرہے- مگریہ بات یاد رکھئے کہ آج تمام عالم اسلام کے مسلمانوں کے پاس نماز پنجگانہ کیلئے جوواحد اسلامی رفرنس دستیاب ہے وہ قرآن نہیں ہے بلکہ صرف ایک حدیث ہے اورہم یہ سمجھتے ہیں کہ بخاری شریف کی وہ حدیث، خداکی شان میں بھی گستاخی ہے اوراسکے نبی اکرم کی شان میں بھی گستاخی ہے- (یہ بخاری شریف کی حدیث 349۔"کتاب الصلوۃ " ہے)-
بخاری شریف کی اس حدیث کے مطابق رسول خدا، معراج پرتشریف لے گئے تو خدانے مسلمانوں پر50 نمازیں فرض کردی تھیں-عرش سے نیچے اترے تو حضرت موسی وہاں کھڑے تھے(کیوں وہاں کھڑے تھے؟ ) حضرت موسی نے پوچھ گچھ کی اور ہمارے نبی کو سمجھایا کہ آپکی امت 50 نمازیں نہیں پڑھ سکتی- آپ واپس جاؤ اورخدا سے نمازیں کم کروا کرلاؤ(یعنی یہودیوں کے نبی کو حضرت محمد کی امت بارے، خود حضور پاک سے زیادہ علم تھا)- اب حضور واپس خداکے پاس جاتے ، 5 نمازیں کم کروا کرآتے اورحضرت موسی واپس حضور کو بھیجتے کہ مزید کم کروا کرآؤ( نعوذ باللہ، ہمارے نبی کو توگویا انجان شاگرد سا بنادیا گیا کہ کسی بڑے کے کہنے پر باربارخدا کے دربار جارہے)- بہرحال ہرچکرمیں خدائے پاک نمازوں کی تعداد کم کرتا گیا حتی کے پانچ نماز روزانہ رہ گئ ( یعنی وہ جو خدائ قانون ہے کہ " لن تجد لسنت اللہ تبدیلا" اسکی خلاف ورزی خود خدا کرتا رہا)-اچھا ،آخری چکرمیں ایکبارپھرحضرت موسی نے فرمایا 5 نمازوں سے بھی کم کرواؤ مگرحضورپاک نے فرمایا کہ اب مجھے شرم آتی ہے( حالانکہ رحمت عالم کو اپنی امت کے ضعف کا زیادہ خیال ہوتا تھا- اس میں شرم کیسی؟ )-
بہرحال، نماز پنجگانہ کی فرضیت بارے یہی واحد"سند" ہے جو مسلمانان عالم کے پاس ہے – مسلم سیکولرزکواگرچہ کسی کے عقائد اورمذہبی رسومات پرکوئ اعتراض نہیں مگرمکررعرض ہے کہ مذکورہ بالا "حدیث" کوہم خدا کی شان میں بھی گستاخی سمجھتے ہیں اوراپنے نبی کی شان میں بھی-
واپس کریں