دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اسرائیل کے صومالی لینڈ کو تسلیم کرنے پر مسلم ممالک کا شدید احتجاج
No image اسرائیل کی جانب سے صومالی لینڈ کو تسلیم کرنے کے اعلان پر پاکستان سمیت متعدد اسلامی ممالک نے مشترکہ مذمتی اعلامیہ جاری کیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق پاکستان، فلسطین، قطر، سعودی عرب، صومالیہ، سوڈان، ترکیہ، یمن، اردن، مصر، الجزائر، کوموروس، گیمبیا، ایران، عراق، کویت، لیبیا اور مالدیب اس مشترکہ موقف کا حصہ تھے، جبکہ نائجیریا، عمان اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھی اعلامیے کی حمایت کی۔ تاہم اسرائیل کی مذمت کرنے والے ممالک میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش شامل نہیں تھے، جو معاہدہ ابراہیمی پر دستخط کر چکے ہیں۔
یہ مشترکہ اعلامیہ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی جانب سے جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ اسرائیل کا صومالی لینڈ کو تسلیم کرنا بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ اقدام ہارن آف افریقہ اور بحرۂ احمر کے خطے میں امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ صومالیہ کی وحدت، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو نقصان پہنچانے والے کسی بھی اقدام کو ناقابلِ قبول قرار دیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ اسرائیلی فیصلہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم کا عکاس ہے اور عالمی امن و سلامتی کے لیے شدید خطرات پیدا کرتا ہے۔ فلسطینی عوام کی جبری بے دخلی سے اسرائیلی اقدام کو جوڑنے کی کسی بھی کوشش کو مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا، جبکہ اسلامی ممالک اور او آئی سی نے صومالیہ کی خودمختاری کے حق میں متفقہ اور واضح موقف کا اعادہ کیا۔اعلامیے کے تناظر میں یہ سوال بھی شدت سے ابھرتا ہے کہ دنیا کے دو بڑے دیرینہ مسائل فلسطین اور کشمیر آج بھی حل طلب ہیں، جہاں مسلمانوں کا مسلسل خون بہایا جا رہا ہے، مگر عالمی برادری بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اقوام متحدہ عملاً بے بس نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس سوڈان اور ایسٹ تیمور میں علیحدگی کی تحریکوں کو اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کی مشترکہ حمایت سے آزادی دی گئی، کیونکہ وہاں آزادی کی کوشش کرنے والے مسلمان نہیں بلکہ مسیحی تھے۔ جہاں جہاں مسلمان اپنے حق کا مطالبہ کرتے ہیں، وہاں انہیں شدید ترین تشدد اور موت تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ او آئی سی کے اجلاس تو منعقد ہوتے ہیں، مگر نشستند، گفتند، برخاستند سے آگے بات نہیں بڑھتی۔ محض تشویش، مذمت اور قراردادوں سے یہ مسائل حل نہیں ہوں گے، اس کے لیے عملی اور متحدہ حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ اس اہم اجلاس میں بھی تین مسلم ممالک شریک نہیں ہوئے، جو مسلم اْمہ کے اتحاد کی کمزور حالت کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے۔
بشکریہ نوائے وقت
واپس کریں