دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
معاشی بحران پر قابو پانے کے حکومتی دعوے اور زمینی حقائق
No image عام آدمی کے معاشی مسائل کچھ بھی ہوں، ہر حکومت کے یہی دعوے کرتی دکھائی دیتی ہے کہ اس نے تمام مسائل پر قابو پا لیا ہے اور اب ترقی کا پہیہ تیزی سے گھوم سے رہا ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف بھی کچھ ایسا ہی کہہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک معاشی بحران سے نکل چکا ہے۔ ترقی کی جانب رواں دواں ہیں، ادارہ جاتی اصلاحات سے گڈگورننس میں اضافہ ہو گا، نوجوان قیمتی اثاثہ ہیں، فنی ٹریننگ دے کر برسر روزگار کریں گے۔ نیشنل ریگولیٹری ریفارمز کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کاروباری طبقے اور عوام کی جانب سے ان اصلاحات کا مطالبہ گزشتہ کئی دہائیوں سے تھا،سرمایہ کار ، صنعت کار تاجر برادری پیچیدہ قوانین غیر ضروری ضوابط اور طویل طریقہ کار سے پریشان تھے، ریگولیٹری فریم ورک کا اجرا کوانٹم جمپ کی حیثیت رکھتا ہے، ان اصلاحات سے کاروباری برادری اور عوام کے دیرینہ مسائل حل ہوں گے۔ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار اور نازک صورتحال سے دوچار تھی، پالیسی ریٹ معیشت کو مفلوج کر چکا تھا، مہنگائی بے قابو اورملک میں کاروباری سرگرمیاں جمود کا شکار تھیں، بیرون ممالک سے سرمایہ کاری رک گئی تھی ، ملک مکمل طور پر دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا تھا۔ ہماری حکومت نے امید کا دامن نہیں چھوڑا ، بہتر حکمت عملی سے چیلنجز کا مقابلہ کیا اور ایک پوری ٹیم ورک کے ذریعے دن رات کام کر کے ملک کو اس دلدل سے نکالا۔
ایک جانب وزیراعظم معیشت کی بہتری کے دعوے کر رہے ہیں اور دوسری طرف آئی ایم ایف بتا رہا ہے کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں غربت میں اضافہ ہوا ہے اور غربت کی شرح 25.3 فیصد ہو چکی ہے۔ عالمی ساہوکار کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت کو غربت کے خاتمہ کے لیے کوششوں کی کڑی نگرانی کرنی چاہیے۔ ادھر، وفاقی وزیر خزانہ سینٹر محمد اورنگزیب کہہ رہے ہیں کہ منی بجٹ نہیں لا رہے، شاٹ فال کو کمپلائنس اور گڈ گورنس سے کور کریں گے۔ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پالیسی ریٹ 24 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد پر آگیا ہے، اگر افراطِ زر کی شرح اسی طرح رہی تو یہ سنگل ڈیجٹ ہو جائے گا۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے زیر اہتمام آل پاکستان چیمبرز کانفرنس سے خطاب اور اخبار نویسوں سے مختصر گفتگو میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ٹیکس دینے سے ملک چلا کرتے ہیں اب ہم نے آگے بڑھنے کا راستہ ڈھونڈنا ہے، جب بزنس مین پارلمنیٹرینز اثاثے ظاہر کر سکتے ہیں تو بیوروکریٹس کو کیا مسئلہ ہے؟
وزیراعظم اور وزیر خزانہ دونوں اس بات سے بہت اچھی طرح واقف ہیں کہ ان کے دورِ حکومت کے دوران کس کے معاشی مسائل کس حد تک حل ہوئے ہیں۔ جو دعوے وہ کر رہے ہیں ان کی تصدیق کے لیے گلیوں بازاروں کا رخ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ شاید اپنے اور اپنے اردگرد موجود اشرافیہ کے نمائندوں کے مسائل حل کی بات کر رہے ہیں۔ بیوروکریسی بھی اسی اشرافیہ کا حصہ ہے اور کسی بھی دوسرے محکمے، ادارے یا طبقے سے زیادہ تگڑی ہے کیونکہ حکومت اس کے بغیر چل ہی نہیں سکتی، لہٰذا بیوروکریٹس کسی بھی قاعدے ضابطے کو خاطر میں لائے بغیر وہ سب کچھ کرتے ہیں جس سے انھیں انفرادی اور گروہی حیثیت میں فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ کسی حکومت میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ بیوروکریسی کو قابو میں لا سکے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک بیوروکریسی بے قابو رہے گی، اس ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
جہاں تک پاکستان میں سرمایہ کاری کی بات ہے تو اس سلسلے میں موجودہ حکومت بھاگ دوڑ تو بہت کر رہی ہے اور بیرونِ ملک سے اعلانات بھی بہت سے ہوئے ہیں لیکن تاحال اس حوالے سے کوئی ایسی عملی پیشرفت نہیں ہو سکی جسے حوصلہ افزا قرار دیا جاسکے۔ حکومت سمیت تمام سٹیک ہولڈرز اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بیرونی سرمایہ کار پاکستان کیوں نہیں آ رہے لیکن اس کے باوجود وہ ان مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ نہیں دے رہے جو بیرونی سرمایہ کاروں کے پاکستان آنے کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ معاشی مسائل کے حل کے لیے دوست ممالک ایک حد تک ہی ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں، اس سے آگے ہمیں اپنے مسائل حل کرنے کے لیے خود کوششیں کرنا ہوں گی اور جب تک ہم سنجیدگی سے کوشش نہیں کریں گے تب تک ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
معیشت کی بہتری کے سلسلے میں پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج آئی ایم ایف کی بیساکھیاں اور شرائط بھی ہیں۔ گزشتہ تقریباً سات دہائیوں سے ہر حکومت کشکول پکڑ کر آئی ایم ایف کے در پر پہنچ جاتی ہے اور پھر یہ عالمی ساہوکار اس سے ہر وہ شرط منواتا ہے جو معیشت کو کمزور کرنے یا امریکی مفادات کے لیے کام کرنے والے ایک خاص طبقے کے ہاتھ میں رکھنے کے لیے کام آسکتی ہے۔ بظاہر آئی ایم ایف کی طرف سے ایسی شرائط پیش کی جاتی ہیں جن کا مقصد پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانا اور معاشی نظام میں بہتری لانا ہوتا ہے لیکن اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ان شرائط نے ہی ہماری معیشت کو ایسا بنا دیا ہے کہ اب ہم آئی ایم ایف کی بیساکھیوں کے بغیر چل ہی نہیں سکتے۔ حکومت اگر معیشت کی بہتری اور ملک اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے واقعی سنجیدہ ہے تو اسے آئی ایم ایف سے جان چھڑانا ہو گی اور بیورورکریسی سمیت ساری اشرافیہ کے اللوں تللوں کو بھی قابو میں لانا ہوگا۔بشکریہ نوائے وقت
واپس کریں