دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تاریخ کے اسباق بلکل واضح ہیں
No image بلوچستان بدستور صحت کے ناقص نظام ، غیر محفوظ سڑکوں، غیر معیاری تعلیمی نظام اور ملک کے سب سے زیادہ اسکول نہ جانے والے بچوں کے تناسب سے دوچار ہے۔ تقریباً 70 فیصد عوام صاف پانی، طبی دیکھ بھال اور روزی روٹی کے مواقعوں سے کوسوں دور ہیں ۔ سیاسی محاذ پر اپنے حقوق کے لئے اٹھانے والی آوازوں کو "مخالف ریاست" ہونے کے الزامات کے تحت خاموش کر دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں سوشل میڈیاکسی حد تک بلیک آؤٹ، محدود انٹرنیٹ تک رسائی اور سرکاری بیانیے کے غلبے کی وجہ سے ایک حقیقی تصویر پیش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
ان مشکلات کے باوجود، بلوچ نوجوان تعلیم، احتجاج اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے لیے جگہ پیدا کرنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی ان میں سے بہت سے لوگوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے، جس سے خوف کی فضا میں اضافہ ہوا ہے۔ اغوا اور ٹارگٹ کلنگ کے باعث کی امن و امان کی صورت حال کو پہلے سے بھی مزید غیر مستحکم کر دیا ہےلیکن اہم یہ ہے کہ ایک حالیہ حکومتی ہدایت نے بلوچستان میں تناؤ کی کیفیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ لاپتہ افراد کے اہل خانہ سے اب حلف ناموں کے ذریعے اپنے لاپتہ رشتہ داروں سے انکار کرنے کو کہا جا رہا ہے ۔ مذکورہ اقدام نہ صرف بنیادی حقوق کو مجروح کرتا ہے بلکہ عوام اور حکومت کے درمیان بداعتمادی کو بھی گہرا کرتا ہے اور ان خاندانوں کے لیے جو پہلے ہی سے مشکلات کا شکار ہیں ایک تازہ زخم ہے۔
شہریوں پر "پراکسی" کا لیبل لگانا صرف تقسیم کو بڑھاتا ہے۔ زبردستی کے ریاستی ہتھکنڈوں سے بلوچستان کے موجودہ بحران کو حل نہیں کیا جا سکے گا بلکہ بحران مزید بڑھے گا اس ضمن میں تاریخ کے اسباق بلکل واضح ہیں۔
واپس کریں