
۔27 ویں آئینی ترمیم کی پارلیمنٹ میں مکمل بحث و مباحثہ کے بغیر راتوں رات ہنگامی بنیادوں پر منطوری کے بعد اب چونکہ گرد و غبار بیٹھ چکا ہے اور مطلع بھی صاف ہو چکا ہے اس لئے جذباتی قوم کی خدمت میں عرض کرنے لگا ہوں کہ مذکورہ آئینی ترمیم کی منظوری کا براہِ راست تعلق عام آدمی کی روزمرہ زندگی، مہنگائی، روزگار، بجلی و سوئی گیس کے بل، پٹرول کی قیمت یا ٹیکسوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔مہنگائی، بے روزگاری، بجلی کے بل، گیس کی لوڈشیڈنگ پر اس ترمیم کا کوئی اثر نہیں ہونے والا اورعام آدمی کی اجیرن زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ یہ”آئینی تبدیلیاں“ عام آدمی کے لیے براہِ راست کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں لا رہی ہیں۔
تھانہ کلچر، پولیس تشدد، عدالتوں میں بیس بیس سال چلنے والے مقدمات، وکلا کی ہڑتالیں، ججوں کی ناجائز سفارشیں، رشوتیں، من پسند جانبدار فیصلے اور عدالتی اخراجات وغیرہ ان سب بگڑے ہوئے معاملات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
دیوانی اور فوجداری مقدمات جن میں 90 فیصد عام آدمی پھنسا رہتا ہے اب بھی اسی سست رفتار نظام کے تحت چلیں گے۔مختصر کہ عام آدمی کو 27ویں آئینی ترمیم سے کوئی براہِ راست فائدہ نہیں ہو گا۔
امر واقع یہ ہے کہ مذکورہ آئینی ترمیم بنیادی طور پر طاقتور حلقوں (حکومت، اسٹیبلشمنٹ، اپوزیشن) کے درمیان اختیار کی تقسیم نو ہے کہ کون سے جج کب اور کیسے تعینات ہوں گے۔یعنی وہی پک اینڈ چوز والی پالیسی برقرار رہے گی گویا شراب وہی پرانی ہے بوتل تبدیل کر دی گئی ہے۔
عوام کے بنیادی مسائل مثلاً انصاف کی سست روی، مہنگائی اور غربت جوں کے توں رہیں گے۔ اب اگر کوئی سیاست دان یا حکومتی ٹاوٹ یہ کہے کہ” اب انصاف کا نظام بہتر ہو جائے گا“ تو وہ محض سیاسی بیانیہ ہو گا، زمینی حقیقت جو ابھی ہے، آئندہ بھی وہی رہے گی۔
آخر میں عرض کرتا ہوں، جس بھی ریاست میں اشرافیہ کلب، لوکل اور عالمی اشٹبلشمنٹ کا مشترکہ قبضہ ہوتا ہے وہاں کبھی بھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جاتا جس سے عوام کو کوئی بڑا فائدہ،ریلیف یا سہولت ملے،عوام کو تقسیم کر کے اور مختلف مسائل میں الجھائے رکھنا ہی قبضہ برقرار رکھنے کا اصل راز ہے۔
واپس کریں