دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نیو یارک کا مخملی انقلاب۔فرنود عالم
No image لفظ انقلاب سن کر کبھی مخمل اور ریشم کاخیال آتا ہے؟ مجھے تو نہیں آتا۔ مجھے تشدد سے بھرے ایسے منظرنامے کا خیال آتا ہے جس میں خوش دکھائی دینے والا ہرچہرہ نفرت کی علامت بن چکا ہوتا ہے۔ ایسی صبح کا خیال آتا ہے جس میں کامیاب ہونے والا انقلاب خود دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکا ہوتاہے۔ ایک دھڑا وہ جو اقتدار حاصل کرلیتاہے۔ دوسرا وہ جو اصول کی بات کر رہا ہوتا ہے۔اصول والے دھڑے کو بے رحمی سے کچل کر جبر کے نئے دور کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔
اپنے ہی بچے توان انقلابوں نے بھی چبائے ہیں جن کے پیچھے سیاسی شعور موجود تھا۔ جن کے پیچھے سیاسی شعور نہیں تھا ان انقلابوں کا تو کوئی چہرہ بھی نہیں بن سکا۔ عرب اسپرنگ ابھی کل کی بات ہے۔ تیونس سے لیبیا تک اوپر تلے تخت الٹے گئے، مگرخود انقلابیوں کو بھی آج تک علم نہیں ہوسکا کہ یہ انقلاب شروع کیوں ہوا تھا اور ختم کیسے ہو گیا تھا۔
خطے میں بے چہرہ انقلابوں کاایک نیاسلسلہ اب جین زی نے متعارف کروایا ہے۔ ایک ہجوم بہت تیزی کے ساتھ انسٹا گرام سے نکلتا ہے، جھٹ سے حکومت گراتا ہے اور پٹ سے واپس انسٹا میں گھس جاتا ہے۔ صبح تک اپنی ہی بنائی ہوئی sigma edits کے ذریعے لوگوں کواطمینان دلادیتاہے کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ویوز ایک لاکھ سے اوپر ہوجائیں تواپنے ہی گھڑے ہوئے جھوٹ کو سچ مان کرخود بھی مطمئن ہوجاتاہے۔
انقلاب اورمخمل جیسے الفاظ ایک دوسرے سے لگا نہیں کھاتے۔تاریخ نے مگر چیک سلواکیہ میں آنے والے ایک پر امن انقلاب کو velvet revolution یعنی مخملی انقلاب کے نام سے یاد رکھا ہوا ہے۔ چیک سلواکیہ فرانز کافکا اورمیلان کنڈیرا جیسے ادیبوں کا ملک ہے۔ ان دونوں ادیبوں کو اس شخص میں زیادہ دلچسپی تھی جو کسی بھی طرح کے انقلاب کے بعد تنہا رہ جاتاہے۔ یہ احساس اجتماعی شعور میں ڈھل جائے تو انقلاب ہموار ہوجاتے ہیں۔چیک سلواکیہ کا انقلاب ہموار تھا۔ خون بہا نہ آنچ آئی۔ سر پھٹا نہ آنکھ پھوٹی۔ پر امن انقلاب کی یہ واحد مثال تو نہیں ہے مگر خوبصورت مثال ضرور ہے۔
اس انقلاب میں ہمدردی کا جذبہ غالب تھا۔مختلف رائے رکھنے والوں کی نیت اور کردار پہ انقلابیوں نے شک نہیں کیا۔ انقلابوں میں ایسا ہوتا نہیں ہے، مگر انقلاب کی قیادت ایک آرٹسٹ کے پاس ہو تو یہ سب ممکن بھی ہوجاتا ہے۔ واکلاو ہیول تیس برس سے 'دی پارٹی گارڈن جیسے ڈراموں کے ذریعے سماج کی بنیادوں میں تبدیلی کا پانی چھوڑ رہے تھے۔وہ فنکار سے زیادہ کچھ نہیں بننا چاہتے تھے۔ سیاستدان بھی نہیں۔انقلاب کی ہوا چلی تو قوم نے انہیں اپنا رہنما کرلیا۔ انقلاب کامیاب ہوا تو انہی کو اپنا صدر بھی منتخب کرلیا۔
مزاحمت کار اگر آرٹسٹ ہو تواسے اپنی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔آرٹسٹ کے پاس کہانی کی طاقت ہوتی ہے۔ وہ مزاحمت کی پوری سرگرمی کو کہانی بنا دیتا ہے۔ وہ کردار نگاری کرتا ہے اور علامتیں تخلیق کرتا ہے۔ آوازوں کے بیچ وقفے تخلیق کرتا ہے اور خاموشیوں کو معانی دیتا ہے۔وکلاو ہیول کے ڈراموں اور کتابوں پرپابندی لگ چکی تھی، مگر ہیول نے کہانی کے ہتھیار کو سرنڈر نہیں کیا۔اس نے لوگوں کے احساس کو کہانی میں ڈھالا اور سنانے کیلئے کہانی کو لوگوں کے ہی حوالے کردیا۔ کینوس اتنا وسیع رکھا کہ ہر سننے والے کواپنا آپ کہانی کا مرکزی کردار لگنے لگا۔
ہیول نے زیر زمین محفلوں کو تھیٹروں میں بدل دیا۔۔ وائلن اور گٹار کو احتجاج کا حصہ بنادیا۔ تنظیم بھی بنائی توکوئی بھڑکتا ہوا نام رکھنے کی بجائے سوک فورم جیسا تعمیری نام رکھ دیا۔ اس فورم سے جڑنے والوں نے کسی اور کو کچھ نہیں کہا، فقط اپنی کہانی سنائی۔ برسوں سے تہہ خانوں میں سنائی جانے والی کہانیوں نے نومبر 1989 میں اپنا راستہ لیا۔کھڑکی دروازوں سے کہانی باہر جھانکنے لگی۔ فضا ہوا شجر حجر پھول پانی سب کہانی سنانے لگے۔ ملک کہانیوں کے شور سے ایسے گونج اٹھا کہ طاقت چند ہی دنوں میں بے بس ہوکر ڈھیر ہوگئی۔
ظہران ممدانی کی جیت اور انتخابی مہم کو مخملی انقلاب اس لیے مان لینا چاہیے کہ ظہران کا مقابلہ کسی امیدوار سے نہیں تھا۔اس کا مقابلہ ان لابیوں سے تھا جنہوں نے جمہوریت کو اکثریت کے استبداد میں بدل دیا ہے۔ سیاسی مہم جوئیوں کو افرا تفری کا سامان بنادیا ہے۔ اسکا مقابلہ سی این این، فوکس اور ٹویٹر جیسی بیانیہ ساز کمپنیوں کے مالکان سے بھی تھا۔ اس گروہ سے بھی تھا جو نسلی اور صنفی امتیاز پر فخر جتلا رہا تھا۔ غریب کی غربت پر اب باقاعدہ ہنسنے بھی لگا تھا۔ تنوع کا انکار رہا تھا اور اظہار کی آزادیوں کو محدود سے محدود تر کرتا رہا تھا۔
ان سب کا مقابلہ اس لیے بھی آسان نہیں تھا کہ کوئی طاقتور لابی ظہران کی پشت پناہی نہیں کر رہی تھی۔ ہارجیت میں کردار ادا کرنے والے تقریبا سارے ہی مراکز اسکے خلاف تھے۔ اسکے پاس لوگ تھے اور فقط لوگ تھے۔ یہ مقابلہ ظہران کے اعصاب کو چٹخا دیتا اگروہ آرٹسٹ نہ ہوتا یا آرٹسٹ ماں کا بچہ نہ ہوتا۔ آرٹسٹ کواندازہ ہوتا ہے کہ کہانی کی طاقت کتنی بڑی ہوتی ہے۔وہ جانتا ہے کہ مختلف رنگ نسل اور رجحان رکھنے والے لوگوں کی کہانی کہاں جاکر ایک ہوتی ہے۔ ظہران نے اپنی مہم کو ایک کہانی بنا دیا۔ ایسی کہانی جووہ سنا نہیں رہا تھا بلکہ سن رہا تھا۔ کافی شاپ پر دہاڑی بنانے والا اسٹوڈنٹ ہو یا باہر فٹ پاتھ پر پیانو بجا کر پیسے دو پیسے جوڑنے والا غریب، ظہران نے سب کو اپنی کہانی سنانے پر لگا دیا۔ کہانی سناو۔ عربی اور ہندی میں سناو۔چینی روسی اورہسپانوی میں سناو۔ بول کر سناو، ناچ کر سناو، گاکر سناو۔ روکر سناو اور مسکرا کر سناو۔ جیسے بھی سنا سکتے ہو بس اپنی کہانی سناو۔
ظہران نے ایک تو ہنسنا نہیں چھوڑا دوسرا کہانی کو رکنے نہیں دیا۔ جو جتنی کہانی سنا سکا سنا ڈالی۔ جو کہانی رہ گئی ظہران نے اسے مکمل کرنے میں مدد دی۔ لوگ نہیں سنا سکے تو ظہران نے وہ کہانی پھر خود سنائی۔ بسوں میں چڑھ کر کبھی فٹ پاتھ پہ چل کر کبھی ساحل پہ پہنچ کر سنائی۔
ٹیکس کے بوجھ تلے دبنا ایک فقرہ ہے۔ اس فقرے کو کہانی میں بدل کر ظہران اور اسکی آرٹسٹ بیوی نے ہزار طریقوں سے سنائی۔ کبھی ٹریجڈی بناکر سنائی کبھی کامیڈی بناکر سنائی۔ کبھی ہزار الفاظ کو سمیٹ کر ایک تصویر میں سمو دیا۔ کبھی تصویر کو تحلیل کرکے باجے میں پھونک دیا۔کبھی اسے رنگوں میں بدل دیا۔پھر رنگ سے محنت کش کی تھکن کو پینٹ کردیا۔
ظہران نے بتایا کہ طاقت سنانے میں نہیں ہے، سننے میں ہے۔ سناتے وقت آپ مجمع سے الگ ہوکرسامنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔سنتے وقت آپ شامل حال ہوجاتے ہیں۔الگ کھڑے ہوکر کہانی سناو تو انقلاب آتے ہیں۔ شامل ہوکر کہانی سنو تو مخملی انقلاب آتے ہیں۔
واپس کریں