دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
لیبارٹری کی نئی لانچنگ
No image خاکسار اس خیال سے تھا کہ عمران نیازی والا ”تجربہ“بری طرح فلاپ ہونے اور اس تجربے کے نتیجے میں برپا ہونے والی تباہی اور بربادی کے بعد سائنس دانوں نے مذید تجربے کرنے سے توبہ تائب کر لی ہو گی لیکن شاہد آفریدی اور اب ٹی وی اینکر اقرارالحسن کو منظر عام پر لانے کے بعد خیال غلط ثابت ہوا۔ عمران نیازی کا تجربہ تو ایسا بلنڈر ثابت ہوا کہ لیبارٹری ہی دھماکے سے اڑتے اڑتے رہ گئی تھی باقی کسر کوئی باقی نہیں رہ گئی تھی لیکن معروف مغربی مصنف ایڈورڈ ہکسن کی ایک نظم کے مطابقTry And Try Again پر لیبارٹری میں مذید تجربے جاری ہیں۔
اس خاکسار کو لگتا یہی ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے گرد گھیرا مزید تنگ کیا جائے گا اور اس کے بعد ملک میں سیاسی خلاء پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی بلکہ آذاد کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کی طرز پر پاکستان میں بھی سیاست دانوں کے خلاف تحریک شروع کروائی جائے گی جس کی قیادت لیبارٹری میں بننے والے نئی پراڈکٹس کریں گی،جن کا زکر اوپر کیا جا چکا ہے۔
شاہد آفریدی پر کام تو کافی عرصے سے جاری تھا، مہنگی مارکیٹنگ بھی ہو رہی تھی لیکن کوئی خواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے تھے، اب ٹی وی اینکر اقرارالحسن کو باقاعدہ لانچ کر دیا گیا ہے جسے ''لانچنگ کا فیز ٹو کہنا بے جا نہ ہو گا
لیکن نتیجہ اس پراڈکٹ کا بھی خاطر خواہ نہیں نکلنا اور وجہ صاف اور واضع ہے کہ وقت بدل چکا ہے، نہ یہ70 کی دھائی ہے اور نہ ہی بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کا دور، موجودہ سوشل میڈیائی دور میں کسی کو ماموں بنانا یا الو کا پٹھا بننا ممکن نہیں رہا۔
اگر عوام کو آپ جناب اپنی لیبارٹری پراڈکٹ کو دوسرا عمران نیازی بنانے کے چکر میں باوردی افسران کی جانب سے پروٹوکول دیتا ہوا دکھائیں، نمازیں پڑھتا،سجدے،رکوع یا وضو کرتا ہوا دکھائیں گے یا پھر اسکولوں کے بچوں سے خطاب کرتا ہوا دکھائیں تو آپ موجودہ دور میں نہیں بلکہ اسی سابقہ دور میں جی رہے ہیں جس دور کا زکر پہلے کیا جا چکا ہے۔
شاہد آفریدی اور اقرار الحسن کو حالیہ دنوں میں نمایاں کرنے کی وجہ ظاہر ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال ہے، جہاں عمران نیازی اور پی ٹی آئی کی گرفتاریوں، احتجاجوں اور نوجوانوں کی تحریک کے پس منظر میں ان دونوں کو ایک ''متبادل قیادت'' کے طور پر پروموٹ کیا جا رہا ہے جو یقینا ایک منظم مہم یا پری پلان منصوبے کا حصہ ہے اور مقصد پی ٹی آئی کے نوجوان ونگ کو تقسیم کرنا، عمران خان کی مقبولیت کو چیلنج کرنا اور نوجوانوں کو ایک نئے ”جمہوری“ سیاسی پلیٹ فارم کی طرف راغب کرنا ہے۔
نومبر 2025 میں جب پی ٹی آئی اور دیگر تحریکیں شروع ہونے کے آثار منڈلانے لگے ہیں تو لیبارٹری پراڈکٹس شاہد آفریدی اور اقرار الحسن کو نوجوانوں کے ”حقیقی انقلابی“ کے طور پر سامنے لایا جا رہا ہے۔ اقرار الحسن نے حال ہی میں مظفرگڑھ، مظفرآباد اور دیگر جگہوں پر طلبہ کے درمیان دورے کیے، جہاں انہوں نے ''انٹرنل الیکشنز'' والی ایک نئی سیاسی جماعت کا تصور پیش کیا، جس میں مڈل کلاس نوجوان وزیراعظم بن سکیں۔ شاہد آفریدی کو بھی اسی مہم سے جوڑا جا رہا ہے، جہاں ان کی کرکٹ کی شہرت اور سماجی کاموں کو استعمال کر کے نوجوانوں کو راغب کیا جائے اور یہ سب عمران نیازی کی گرفتاری اور پی ٹی آئی کی ممکنہ تحریک کے براہ راست جواب میں ہے۔
ایک پراڈکٹ اقرار الحسن کی ویڈیوز میں طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ ”جلاؤ گھیراؤ“ نہیں بلکہ ایک نئی جماعت سے انقلاب آئے گا“۔ یہ جملہ پی ٹی آئی کی احتجاجی حکمت عملی کو براہ راست چیلنج ہیں۔
دوسری پراڈکٹ شاہد آفریدی کو ”اسٹیبلشمنٹ کا آفریدی“ کہہ کر سہیل آفریدی کے مقابلے میں پیش کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں ایشیا کپ فائنل پر آفریدی کا بیان کہ ”ہماری ٹیم بھارتی ٹیم کے ساتھ 10 مئی والا حال کرے“ بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، جو واضع طور پر سیاسی اشارہ ہے۔
سوشل میڈیا پر سائنس دانوں کی لیبارٹری کی ان پراڈکٹس کا خوب مذاق اڑایا جا رہاہے اور انہیں اسٹیبلشمنٹ کی لانچ ٹو قرار دیا جا رہاہے۔یاد رہے گلوکار جواد احمد کو بھی اس سے پہلے لانچ کیا گیا تھا لیکن وہ راکٹ اڑان بھرنے سے پہلے ہی پھٹ گیا تھا۔اب دیکھنا ہے کہ ”متبادل قیادت“ کا موجودہ راکٹ کتنی دور جا کر پھٹتا ہے۔
واپس کریں