
        خفیہ اداروں کی جانب سے کسی بھی سیاسی یا سماجی شخصیت کو نمایاں کرنے، اسے لیڈر بنانے یا مخصوص مفادات کے حصول کے لیئے ملک کی بزنس کلاس کی جانب سے”فنڈنگ“ کروانا نئی بات نہیں بلکہ تقریباً ہر ملک میں ایسا ہوتا ہے لیکن وہ ایک الگ موضوع ہے کہ قومی مفاد کے نام پر فنڈنگ کے مال میں سے ”اپنا“حصہ کتنے پرسنٹ نکالا جاتا ہے؟ جو ظاہر ہے ان خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جیبوں میں جاتا ہے جو ایسے ٹاسک پر مامور ہوتے ہیں۔ یہ اربوں روپے کا بڑا خفیہ بزنس ہے جو شائد ابھی بھی عام عوام کے علم میں نہیں۔مذکورہ بزنس کلاس عموماً خفیہ اداروں کے پے رول پر ہی رہتی ہے یعنی فنڈنگ کے لیئے ہر دم تیار۔
عمران خان جیسے مردہ گھوڑے میں بھی جب جان ڈالنا مناسب سمجھا گیا تو اس کی فنڈ نگ کے لیئے ملک کے بڑے کاروباری افراد سے”قومی مفاد“ کے نام پر پیسے بٹورے گئے،یہ کہ کر کہ آپ کا اور آپ کے کاروبار کا خیال رکھا جائے گا۔اس فنڈنگ میں سے بھی کروڑوں روپے کی دیہاڑیاں لگائی گئیں۔
 معروف صحافی مزمل سہروری کے مطابق ٹی ایل پی کو فنڈنگ کرنے والے سرمایہ کاروں کو جب پکڑا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ آپ فنڈنگ کیوں کر رہے ہیں تو انکا کہنا تھا ”جناب ہمیں تو ماضی میں حساس اداروں نے خود بولا تھا اس لئے ہم فنڈنگ کر رہے ہیں اب اگر ریاست نہیں چاہتی تو ہم فنڈنگ نہیں کریں گے۔ اس میں ہمارا کیا قصور ہے، ہم تو ابھی تک پچھلی ہدایات کے مطابق چل رہے ہیں“ پھر ان سرمایہ کاروں کو بتایا گیا کہ اب پہلے جیسا کچھ نہیں رہا۔ نہ اب پرانی اسٹبلشمنٹ رہی ہے اور نہ اب ایسے کام ہوں گے۔ تو اس پر فنانسر حضرات کا کہنا تھا”چلیں ٹھیک ہے جناب پھر ہم پر یہ کریک ڈاؤن تو ختم کریں اور درج مقدمات سے جان چھڑوائیں کیونکہ ہم تحریک لببیک کے حمایتی یا کارکن نہیں ہیں“
میرے عزیز آنِ من، کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں!!!
احتشام الحق شامی
        
        
واپس کریں