دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ابو غریب جیل، سی سی ڈی اور انسانی حقوق:راجہ مبین اللہ خان
No image امریکہ نے عراق جنگ کے دوران ایک ایسا خفیہ پروگرام چلایا جس میں لوگوں کو اغوا کر کے دوسرے ممالک بھیجا جاتا تھا تاکہ ان سے تفتیش کی جا سکے۔ اس پروگرام کو "ایکسٹراآرڈنری رینڈی شن" کہا جاتا تھا۔ یہ کوئی معمولی کارروائی نہیں تھی بلکہ ایک عالمی نیٹ ورک تھا جس میں پچاس سے زیادہ ممالک کسی نہ کسی سطح پر شامل تھے۔
اس پروگرام کے تحت مشتبہ افراد کو دنیا کے مختلف حصوں سے پکڑا جاتا، بغیر کسی مقدمے یا قانونی کارروائی کے جہازوں میں ڈال کر خفیہ جیلوں میں منتقل کیا جاتا۔ ان جیلوں کو "بلیک سائٹس" کہا جاتا تھا۔ یہ جیلیں اکثر ایسے ممالک میں تھیں جہاں تشدد عام تھا، جیسے مصر، شام اور اردن۔ امریکی حکومت کا دعویٰ تھا کہ وہ ان ممالک سے یہ یقین دہانی لیتی تھی کہ قیدیوں پر تشدد نہیں کیا جائے گا، مگر حقیقت بالکل مختلف تھی۔
رپورٹس کے مطابق عراق میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد کو امریکی افواج نے گرفتار کیا۔ ان میں سے بہت سے لوگ ابو غریب جیسی بدنام جیل سے گزرے۔ کچھ کو وہاں سے اٹھا کر خفیہ مقامات پر بھیج دیا گیا جہاں ان سے ایسے طریقوں سے تفتیش کی گئی جنہیں بعد میں خود امریکی عدالتوں نے بھی تشدد کے زمرے میں شمار کیا۔
اس پورے عمل کی سب سے خطرناک بات یہ تھی کہ ان افراد پر نہ کوئی مقدمہ چلایا گیا نہ انہیں قانونی نمائندگی دی گئی۔ انہیں نہ بتایا گیا کہ ان پر الزام کیا ہے، نہ یہ کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔ حکومت نے انہیں "غیر قانونی دشمن جنگجو" قرار دے کر ان پر بین الاقوامی اور امریکی قوانین کا اطلاق ختم کر دیا۔ اس ایک اصطلاح نے ہزاروں لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق چھین لیے۔
یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ ان خفیہ پروازوں اور جیلوں کا نیٹ ورک صرف عراق یا مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں تھا۔ یورپ میں بھی کئی ممالک نے خاموشی سے ان جہازوں کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی۔ بعد میں جب یہ انکشافات سامنے آئے تو ان حکومتوں پر سخت تنقید ہوئی کہ انہوں نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں حصہ لیا۔
سی آئی اے نے اس پورے نظام کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا لازمی حصہ قرار دیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ روایتی عدالتی عمل کے ذریعے ایسے خطرناک افراد سے معلومات حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب قانون ہی ختم کر دیا جائے تو انصاف کہاں سے آئے گا۔
اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور بے شمار انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پروگرام کو بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ خاص طور پر اقوامِ متحدہ کے کنونشن اگینسٹ ٹارچر کی دفعہ نمبر تین اس بات کی پابندی کرتی ہے کہ کسی شخص کو ایسے ملک کے حوالے نہ کیا جائے جہاں اسے تشدد کا خطرہ ہو۔ مگر امریکی انتظامیہ نے اس اصول کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔
بعد میں اس پروگرام کے نتیجے میں جو نقصان ہوا وہ صرف اخلاقی یا قانونی نہیں بلکہ عملی بھی تھا۔ اس نے امریکہ کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا۔ اتحادی ممالک میں بداعتمادی بڑھی اور دہشت گرد تنظیموں کے لیے بھرتی کرنا آسان ہو گیا کیونکہ وہ اس عمل کو بطور ہتھیار استعمال کرتی رہیں۔
ہمارے ملک میں ماورائے قانون ایک پروگرام CCD کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ ہمارے لوگ نام نہاد "فوری انصاف" ہوتے دیکھ کر تالیاں پیٹ رہے ہیں۔ صدیوں کی جدوجہد کے بعد حاصل کئے جانے والے انسانی حقوق کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر شدید دکھ ہوتا ہے۔
میں حیران ہوں کہ یہ سب مریم نواز شریف کر رہی ہیں۔ وہ مریم جس نے پولیس اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ماورائے قانون و عدالت مظالم خود سہے ہوئے ہیں۔ مریم کے سیاسی استاد پرویز رشید صاحب کے ساتھ جو کچھ ماورائے قانون ہوا وہی سب ان کی شاگرد کروا رہی ہیں۔
میرے جو فیس بک فرینڈز ماورائے عدالت پولیس مقابلوں اور زمانہ قدیم کے پرتشدد فوری انصاف کے طریقوں پر خوش ہوتے ہیں انہیں یاد کروانا چاہتا ہوں کہ آپ عام لوگ ہیں، آپکا سہارا قانون میں دی گئی سہولیات ہیں۔ نیفے والے پستول اور دوستوں کی فائرنگ کے رواج کی مخالفت کیجئے۔ یہ طریقے کبھی کامیاب نہیں ہوئے۔ پولیس کا گینگ سب سے خطرناک گینگ ہوتا ہے۔ اگر یہ گینگ مضبوط ہو گیا تو آپ کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔
واپس کریں