دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
محب الوطن، غدار اور حقائق
No image احتشام الحق شامی۔جس دن جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی آذاد کشمیر نے اپنے مطالبات اپنی حکومت کے سامنے رکھے تھے،اسی دن سے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے محب الوطن حکومت، بیوروکریسی و اعلی عدلیہ کو حاصل سرکاری مراعات سے دستبرداری کا اعلان کر دینا چاہیئے تھا۔ صرف اس ایک عمل کے نتیجے میں عوام میں ایک عرصہ سے حکمران اشرافیہ کے خلاف موجود غم و غصہ زیادہ نہیں تو کم از کم پچاس فیصد ختم ہو جانا یقینی تھا اور دیگر مطالبات کے حل کی مثبت، حقیقی اور سنجیدہ پیش رفت کا بھی آغاز ہو جانا تھا۔
اب زرا”غدار جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی“ کے چارٹر آف ڈیمانڈز میں اقتصادی مسائل سے آگے بڑھ کر سیاسی، انتظامی اور شہری حقوق کے جو مطالبات شامل ہیں،وہ پہلے ملاحظہ فرمائیں
بنیادی اشیاء کی دستیابی اور سستی،آٹا، گندم اور دیگر ضروری سامان کی قلت ختم کرنا، ان کی مہنگی قیمتوں پر کنٹرول اور سبسڈی کا مطالبہ۔
مہنگائی کا کنٹرول،مجموعی مہنگائی کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات، جیسے ٹیکسوں میں کمی اور اشرافیہ کے خصوصی فوائد ختم کرنا۔
بجلی کے اخراجات میں کمی،بجلی کی قیمتوں میں فوری اور مستقل کمی، کیونکہ بڑھتے ہوئے بل عوام کی کمر توڑ رہے ہیں۔
نظام میں بدعنوانی کا خاتمہ،انتظامی بدعنوانیوں کی تحقیقات اور شفافیت کے لیے اصلاحات۔شہری حقوق اور سیاسی اصلاحات،وسیع تر چارٹر میں شہری حقوق، سیاسی استحکام اور انتظامی تبدیلیاں شامل، جیسے زیادہ جمہوری عمل اور عوامی شمولیت۔
اب محب وطن بتائیں کہ مذکورہ مطالبات میں بھارتی راء اور اسرائیلی موساد کی سازش کہاں کہاں نظر آ رہی ہے؟
جہاں تک پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین کی بارہ اسمبلی سیٹوں کے خاتمے کا اہم مطالبہ جس پر حکمران اشرافیہ سے زیادہ دورے اشٹبلشمنٹ کو پڑ رہے ہیں،اس بابت عرض ہے کہ یہی فیصلہ کن بارہ سیٹیں وہ سفید ہاتھی ہیں جن کی ڈوریں براہ راست حکومتیں بنوانے والے کنک میکرز کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں،یہی نہیں بلکہ ان ہی بارہ سیٹوں پر محض چند ہزار اور محض صرف چند سو ووٹوں سے ”منتخب“ کیئے جانے والے کابینہ میں بھی شامل ہوتے ہیں اور مہاجرین سیٹوں پر منتخب ہونے والے دیگر ایم ایل اے پورے پورے فنڈز اور مراعات پر بھی اپنے ہاتھ صاف کرتے ہیں۔اس بابت بھی آذاد کشمیر حکومت اور سیاست دانوں کو سوچنا چاہیئے کہ مہاجرین کی بارہ سیٹوں کا خاتمہ اگر کر دیا جاتا ہے تو وہی فنڈز آذاد کشمیر میں صرف کر کے عوام کو بہت برا ریلیف دیا جا سکتا ہے۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو کہ عام پاکستانی کو حاصل ہیں اس لیئے بھی کشمیری مہاجرین کے لیئے علیحدہ سے بارہ خصوصی اسمبلی سیٹوں کو کوئی جواز نہیں بنتا۔
آذاد کشمیر کو قرضہ دینے والے پاکستان پر خود اتنا قرض چڑھ چکا ہے کہ اوسطاً ہر پاکستانی شہری 3 لاکھ 18 ہزار 252 روپے کا مقروض ہے، پاکستانی حکومتی اشرافیہ کے اللے تللے اور پر تعیش مراعات دیکھیں جبکہ دوسری طرف 45 فیصد پاکستانی آبادی شدید غربت کا شکار ہے۔ اگر پاکستان میں رہنے والوں کو اپنی سنگین صورت حال کا احساس نہیں اور آذاد کشمیر کے باشعور عوام اپنی حکومتی اشرافیہ کے اللے تللوں اور پر تعیش مراعات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں تو محب وطنوں کی جانب سے اس بات میں اتنا غم اور غصہ کیوں کیا جا رہا ہے؟
واپس کریں