
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مسئلہ فلسطین کے دوریاستی حل کی قرار داد بھاری اکثریت سے منظور کر لی۔ یو این اعلامیہ کے مطابق اس قرارداد کے حق میں 142 اور مخالفت میں 10 ووٹ آئے۔ امریکہ اور اسرائیل نے ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔ عرب میڈیا کے مطابق سات صفحات پر مشتمل یو این اعلامیہ جولائی میں سعودی عرب، فرانس کی میزبانی میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کا نتیجہ ہے۔ اسرائیل نے ہٹ دھرمی کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے دو ریاستی حل سے متعلق اقوام متحدہ کا اعلامیہ بھی مسترد کر دیا ہے جبکہ فلسطین کی وزارت خارجہ نے بھاری اکثریت کے ساتھ اقوام متحدہ کی اس قرارداد کی منظوری کا خیرمقدم کیا ہے اور اس امر کا تقاضہ کیا ہے کہ اسرائیلی نو آبادیاتی قبضے کے خاتمہ کے لیئے تمام میکنزم فعال کیئے جائیں اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق یقین بنائے جائیں۔
یہ امر واقع ہے کہ اسرائیل فلسطین کا تنازعہ برطانیہ اور امریکہ کا اپنا پیدا کردہ ہے جنہوں نے 1947ء میں فلسطینی سرزمین پر ایک ناجائز ریاست اسرائیل کا وجود پیدا کیا تھا۔ ان الحادی قوتوں کا ایجنڈہ ہی مسلم امہ کی نشاتہ ثانیہ میں نقب لگا کر اتحادِ امت کو توڑنا تھا۔ اس ایجنڈے پر وہ آج تک کاربند ہیں اور اسرائیل کے ذریعے مسلم دنیا کو خلفشار کا شکار کرنے کی سازشیں آگے بڑھا رہے ہیں۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم درحقیقت امریکی عزائم ہیں اس لئے امریکہ اسرائیل کی ہر شرانگیزی اور جارحیت کا نہ صرف دفاع کرتا ہے بلکہ اس کی معاونت اور سرپرستی بھی کرتا ہے۔ عالمی میڈیا کی رپورٹوں سے یہ امر بھی واضح ہو چکا ہے کہ دوحہ میں حالیہ اسرائیلی حملہ بھی امریکہ نے ہی کرایا ہے جس کے فوجی اڈے قطر میں موجود ہیں اور وہیں سے اسرائیلی جہاز اْڑ کر دوحہ میں حملہ آور ہوئے۔ اس حوالے سے امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے باقاعدہ بیان بھی جاری کیا گیا کہ دوحہ میں حملے سے پہلے قطر کو اس کی اطلاع دے دی گئی تھی۔ اس خطے اور دنیا میں اپنی بالا دستی قائم کرنے کے عزائم فی الحقیقت امریکہ کے ہیں جس میں اسرائیل کو امریکی کٹھ پتلی کے طور پر استعمال کیا جارہاہے۔ گذشتہ دوسال سے غزہ میں اسرائیلی بربریت بھی امریکی سرپرستی میں ہی جاری ہے جس میں تکریمِ انسانیت کو ملیامیٹ کیا گیا ہے اور اسرائیل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، عالمی عدالت انصاف، یورپی یونین، برطانوی پارلیمنٹ اور دنیا و خطے کے ہر نمائیندہ فورم کی کسی بھی قرارداد اور کسی بھی فیصلے کو خاطر میں نہیں لا رہا اور غزہ کے علاوہ دوسرے مسلم ممالک پر بھی حملہ آور ہورہا ہے جبکہ غزہ میں اپنے مظالم کا سلسلہ دراز کئے چلا جارہا ہے۔ اس سے اقوام متحدہ اور عالمی عدالتِ انصاف سمیت دنیا کے ہر نمائندہ فورم کی بے وقعتی پر مہرِ تصدیق ثبت ہورہی ہے۔ اس حوالے سے مسلم قیادتوں کو بہرحال سنجیدہ غور و فکر کرنا چاہیئے کہ اگر وہ تمام تر مصلحتوں، مفاہمتوں سے باہر نکل کر اور باہم متحد ہوکر الحادی قوتوں کی سازشوں کے آگے ڈٹ جائیں تو ایک چھوٹی سی ناجائز ریاست اسرائیل کو مسلم دنیا کے مقابل بھلا پَر مارنے کی بھی جرأت ہوسکتی ہے؟۔ امریکہ کی منافقانہ پالیسی مسلم دنیا سے اس امر کی متقاضی ہے کہ وہ مصلحتوں مفاہمتوں کے لبادے سے باہر نکل آئے اور ایک دوسرے کے تحفظ و دفاع کے لئے مشترکہ حکمت عملی طے کر کے الحادی قوتوں کی ہر سازش اور ہر جارحیت کا ویسا ہی مسکت جواب دے جیسا حالیہ جنگ میں پاکستان نے بھارت کو جواب دیا ہے۔ اگر مسلم ممالک فروعی اختلافات اور مفادپرستیوں میں الجھ کر ایک دوسرے کے ساتھ ہی دست وگریباں رہے تو الحادی قوتوں کو ہماری اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ایک ایک کرکے ہمیں مارنے کا موقع ملتا ہی رہے گا۔ نیتن یاہو اگر اقوام متحدہ کی دو ریاستی حل کی قرار داد مسترد کرتے ہوئے حماس کے ارکان کو تحفظ دینے والے ہر ملک پر دوحہ کی طرح حملہ کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں تو درحقیقت اس دھمکی کے لیئے وہ امریکہ کی زبان ہی استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان نے بہرحال اسرائیلی بربریت کے خلاف ٹھوس اور جاندار مؤقف اختیار کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی جارحیت اور جارحانہ عزائم کو ناکام بنانے کے لئے افواج پاکستان ہر محاذ پر دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کی خاطر ڈٹ کر کھڑی ہیں۔ اسرائیل اور بھارت کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم اتحاد امت کا عملی مظاہرہ کرکے ناکام بنانے کا بہر حال یہی وقت ہے۔
واپس کریں