
شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک ایسے عہد میں جب زوال پذیر امریکی سامراج دنیا میں بڑے پیمانے پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کررہا یے، غزہ میں بدترین نسل کشی کی حمایت کررہا ہے، اور ترقی پزریر ممالک پر تجارتی ٹیرف کے ذریعے دباؤ بڑھا رہا یے، ٹھیک اسی وقت ہمارے خطے کے ممالک بہت عرصے بعد ایک دوسرے سے تعاون کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ان حالات میں بھارت اور چین کے درمیان بہتر تعلقات خطے میں سب سے اہم پیش رفت ہے۔ بھارتی پالیسی سازوں نے کئی دہائیوں سے یہ پلاننگ کررکھی تھی کہ مغرب چین کا مقابلے کرنے کے لئے بھارتی معیشیت اور عسکری قوت پر انوسٹ کرے گا۔ اس بات میں حقیقت بھی تھی اور اوبامہ کے دور سے خصوصی طور پر امریکہ نے بھارت کو ایک علاقائی قوت کے طور پر ابھارنے کی کوشش کی تاکہ خطے میں توازن قائم رہے۔ تاہم اس پالیسی کی وجہ سے بھارت کے اپنے ہمسائے ممالک، بشمول پاکستان، چین، میانمار، نیپال اور بنگلہ دیش سے تعلقات خراب ہونا شروع ہوگئے۔ لیکن بھارت اس خوش فہمی میں تھا کہ خطے کی چودھراہٹ اس کے حصے میں آرہی ہے۔
پچھلے 3 تین ماہ میں یہ خواب بکھر گئے۔ پاکستان کو غزہ بنانے کے خواب پاک فضائیہ نے مئی میں دفن کردئے جبکہ معاشی قوت بننے کے خواب ٹرمپ نے چکنا چور کردیئے ۔ عسکری اعتبار سے واضح ہوگیا کہ بھارت کے پاس خطے کا بدمعاش بننے کی صلاحیت ہی موجود نہیں۔ دوسری جانب ٹرمپ کی مانگ بھارتی حکومت پورا نہیں کرسکتی تھی۔ ایک طرف وہ چاہتا تھا کہ بھارت اپنی زراعت پر ٹیرف کم کرے تاکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے بھارتی منڈی میں سرمایہ کاری کرنے کے مواقع بڑھیں۔ یہ مودی کے لئے ناممکن ہے کیونکہ اس سے بھارت کے کسان فوری طور پر تحریک کی صورت اختیار کرلیں گے، جیسے پنجاب کے کسانوں نے 2019 میں ایک تحریک کے ذریعے اسی طرح کا منصوبہ ناکام بنا دیا تھا۔ دوسری جانب روس سے تیل خریدنے کے معاملے پر بھی بھارت پیچھے نہیں ہٹ سکتا کیونکہ روسی تیل کا متبادل تلاش کرنا بھارت کے لئے مہنگا ثابت ہوگا اور اس کے معیشت پر شدید منفی اثرات ہونگے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات پچھلے 25 سالوں میں آج بدترین کشیدگی کا شکار ہیں۔
لیکن اس بحرانی کیفیت میں ہندوستان اور چین کے تعلقات بہتر ہورہے ہیں جس کی ایک مثال مودی کے چین کے دورے کے دوران نظر آئی۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے لئے ویزے اور پروازیں بھی کھول دی ہیں جو کہ ایک خوش آئیند قدم ہے۔ پاکستان کو چین اور بھارت کے بہتر تعلقات سے کوئی خطرہ لاحق نہیں کیونکہ چین اور پاکستان کے سٹریجک تعلقات بہت گہرے ہیں اور بھارت اور چین کے درمیان آج بھی ایک خلیج موجود ہے جس کو ختم کرنے میں ابھی وقت لگے گا۔
لیکن اب ان دوستوں کو نظر ثانی کرنی چاہئے جو امریکی ورلڈ آرڈر کو چین کے ساتھ ملا رہے تھے۔ امریکہ آج مشرقی وسطٰی کو تباہ کرچکا ہے، درجنوں ممالک پر پابندیاں لگا رہا ہے، چین سے لے کر وینیزویلا تک عسکری گھیراؤ کررہا یے، ہر خطے میں روایتی حریفوں کو ایک دوسرے سے لڑوا رہا یے، اور معدنیات کی طرز کی ہر ڈیل کو جنگ کے ساتھ جوڑ رہا ہے۔ دوسری جانب اس وقت چین مختلف ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کرہا ہے، پہلے سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارت کاری کروائی، پھر فلسطینی گروہوں کو بیجنگ میں جوڑا، حال ہی میں چین کے وزیر خارجہ نے دہلی، کابل اور اسلام آباد کے ایک ہی دن میں دورے کئے، اور اب خطے کے تمام سربراہان کو یکجا کیا۔ تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کی 300 سال کی مغربی پالیسی کے خلاف پہلی بار تیسری دنیا کے ممالک اپنی رنجشوں کے باوجود یکجہتی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
یہ نا کوئی سیدھی لائن ہے اور نہ ہی اس کا مطلب ہے کہ اب ہر اندرونی تضاد ختم ہوجائے گا۔ ہمارے ملک سمیت خطے بھر میں جابرانہ حکومتیں قائم ہیں جن کے خلاف اندرونی مزاحمت ناگزیر ہے۔ لیکن تاریخ کے کچھ رجحان حکومتوں سے بالاتر ہوتے ہیں ورنہ مودی اور ٹرمپ جیسے دو فاشسٹوں کے درمیان کبھی بھی تضاد نہ ہوتا۔ جرمن فلسفی ہیگل تاریخ کی اس لاشعوری سمت کو cunning of history کہتا تھا جس کا مطلب تھا کہ تاریخ کبھی کبھی سیاسی قوتوں سے ان کے شعوری بیانئے کے برعکس کام لیتی ہے۔ تیسری دنیا کا اتحاد ایک تاریخی جبر ہے جو لاشعوری طور پر اس خطے کو ایک دوسرے کے قریب آنے پر مجبور کرہا ہے۔ انقلابیوں کا کام اس لاشعوری عمل کو شعوری قیادت فراہم کرنا ہے تاکہ نہ صرف اس عمل کو آگے بڑھایا جاسکے بلکہ ہر ملک کے اندرونی تضادات کو بھی عوام کے حق میں حل کیا جاسکے۔
لیکن تاریخ ردانقلابی اور رجعتی رجحانات سے بھی بھری پڑی یے۔ امریکی استعمار کی یہ پوری کوشش ہوگی کہ اس خطے میں پاکستان یا بھارت کو جنگ کے لئے استعمال کیا جائے۔ بھارت کے ساتھ فروری میں کئے گئے عسکری معادے اور پاکستان کے ساتھ معدنیات کی ڈیل اس رجعتی رجحان کے عکاسی کرتا ہے جو خون خرابے کے ذریعے خطے کے اندر یکجہتی کو روکے۔ اس لڑائی میں کودنے کے لئے کئی میر جعفر اور میر صادق اپنے اپنے پاپا جونز بنوانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ پاکستان کے ترقی پسندوں پر لازم ہے کہ اپنے زاویے کو تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے وسیع کریں تاکہ اندرونی مزاحمت کے ساتھ ساتھ عالمی صورتحال کو بھی لائحہ عمل کے ساتھ جوڑا جاسکے۔ ہیگل کہتا تھا Truth is the Whole یعنی سچ تک رسائی اجتماعی صورتحال کے جائزے کے بعد ہی ممکن ہے جبکہ کسی بھی معاملے کو دیگر معاملات سے کاٹ کر دیکھنے سے سچ کو پرکھنا مزید مشکل ہوجاتا ہے۔ اندرونی طور پر جمہوریت کی لڑائی اور بیرونی سطح پر سالمیت اور خطے میں یکجہتی کی کوشش، ان کے دونوں پہلوؤں کو ایک ساتھ لے کر چلنا ہی آج کے رہنماؤں اور دانشوروں کے لئے بڑا چیلنج ہے۔
واپس کریں