ناصر بٹ
کچھ دن پہلے لکھا کہ کیا فرق پڑا ہے کہ آج اسٹیبلشمنٹ کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں سسٹم کو جس طرح چاہے بنا رہے ہیں اور سب بے بس ہیں یا روکنے سے لاچار ہیں۔
سابق آرمی چیف جہانگیر کرامت نے نواز شریف کے دوسرے دور میں قومی سلامتی کونسل کی تجویز دی اور اسٹیبلشمنٹ کا حکومت میں رول متعین کرنے کی بات کی تو نواز شریف نے ان سے استعفیٰ لے لیا تجویزکسی سخت جواب کے بعد رد بھی کی جا سکتی تھی مگر نواز شریف نے اسے ایک مثال بنانے کی کوشش کی کہ آئیندہ سول سپرمیسی کی سپیس پر حملہ نہ کیا جا سکے۔۔۔
اسکا نتیجہ کیا نکلا؟
جن کو تکلیف ہونا تھی وہ تو ہوئی مگر مخالف سیاسی جماعتوں نے اسے اپنے لیے ایک موقع سمجھا اور اسے ایک سیاستدان کی طرف سے آمر بننے کی خواہش گردانا اور دن رات نواز شریف کو لتاڑنا شروع کر دیا
نہ کوئی مولوی پارٹی پیچھے رہی اور نہ کائینات کی سب سے بڑی جمہوری پارٹی۔
مشرف نیاآرمی چیف بنا تو فوجی اسٹیبلشمنٹ میں تلخی موجود تھی اور خبروں کے مطابق وہاں فیصلہ ہو چکا تھا کہ اگر دوبارہ نواز شریف کی طرف سے ایسی گستاخی کی گئی تو سبق سکھایا جائیگا اور اس وقت نواز شریف کی مخالف تمام سیاسی جماعتوں نے اسے دلی خواہش بھی بنایا ہوا تھا کہ نواز شریف کو سبق سکھایا جائے۔۔
نواز شریف کے امیر المومنین بننے کی خواہش جیسے بے بنیاد بیانیے دھرائے جانے لگے جن کا نہ کوئی سر تھا نہ پیر۔
کارگل وار پر وزیراعظم کو بے خبر رکھا گیا جس پر نواز شریف رنجیدہ تھا کہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی جو داغ بیل ڈالی جا چکی تھی اسے برباد کر دیا گیا اور وزیراعظم کی سبکی کروائی گئی۔
مشرف کی سازشیں بڑھنے لگیں اس نے وزیراعظم کے منصب کو بے توقیر کرنا شروع کر دیا جس پر اس وقت نواز شریف کے سیاسی مخالفین نے بغلیں بجانا شروع کر دیں باقی سب تاریخ ہے بے نظیر بھٹو کو اس وقت اپوزیشن کی سب سے بڑی لیڈر اور جمہوریت کی چیمپئین بننے والی جماعت کی سربراہ تھیں انہوں نے نواز شریف کو ہٹائے جانے کی بھرپور حمایت کی۔۔
نواز شریف کو دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے چودہ سال کا عرصہ لگا اس دوران پاکستان کی سب سے بڑی جمہوری پارٹی کا پانچ سالہ دور اقتدار بھی رہا جنہوں نے کیانی کو ایکسٹینشن دے کر اپنی جان چھڑائی تھی مگر نواز شریف نے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد مشرف پر آرٹیکل 6 کا مقدمہ قائم کیا یہ شاید اسٹیبلشمنٹ کے قلعے پر آخری حملہ تھا جو کیا گیا تھا اور نواز شریف نے اسے بھگتا۔۔
آج لوگ کہتے ہیں کہ حکومت نے لیگ کی ہے نواز شریف پارٹی سربراہ ہے مگر سچ یہ ہے کہ حکومت اسی کی ہوتی ہے جو وزیراعظم ہو جو نواز شریف اس وقت نہیں ہے۔۔
وزارت عظمیٰ حاصل کرنا اور اسے برقرار رکھنے کی خواہش ہر کسی میں ایک جیسی نہیں ہوتی نہ کوئی نواز شریف جیسا پاگل ہوتا ہے کہ بار بار ایک ہی رستے پر چلتا رہے۔
مگر آج سب کے سامنے ہے کہ صرف نواز شریف کے خاموش ہونے سے باوجود اسکے کہ اسی کی پارٹی حکومت میں ہے ہر طرف خاموشی چھا چکی ہے۔
نہ کوئی تدبیر ہے نہ کوئی مزاحمت اور آج سب اپنے اپنے رونے اور بے بسی سنا اور دکھا رہے ہیں۔۔
صاحبان بندے فرق ڈالتے ہیں اور گاہے سارا فرق ہوتا ہی بندوں سے ہے آج فوج کا چیف ایک مختلف بندہ ہے تو اس نے فرق واضح کیا ہے اسی طرح نواز شریف سیاست کا چیف تھا تو فرق واضح تھا۔
اب نہیں ہوتیں دعائیں مستجاب
اب کسی ابجد سے زندان ستم کھلتے نہیں
سبز سجّادوں پہ بیٹھی بیبیوں نے
جس قدر حرفِ عبادت یاد تھے، پَو پھٹے تک انگلیوں پر گن لیے
اور دیکھا ___ رحل کے نیچے لہو ہے
شیشئہ محفوظ کی مٹی ہے سرخ
سطر ِ مستحکم کے اندر بست و در باقی نہیں
یاالٰہی مرگِ یوسف کی خبر سچی نہ ہو
ایلچی کیسے بلادِ مصر سے
سوئے کنعاں آئے ہیں
اِک جلوس ِ بے تماشا گلیوں بازاروں میں ہے
تعزیہ بردوش انبوِہ ہوا
روزنوں میں سر برہنہ مائیں جس سے مانگتی ہیں، منّتوں کا اجر،
خوابوں کی زکٰوۃ
سبز سجّادوں پہ بیٹھی بیبیو!
اب کسی ابجد سے زندانِ ستم کھلتے نہیں
اب سمیٹو مشک و عنبر، ڈھانپ دو لوح و قلم
اشک پونچھو اور ردائیں نوکِ پا تک کھینچ لو
کچّی آنکھوں سے جنازے دیکھنا اچھا نہیں
الاس کہ سول سپرمیسی کو بچانے والا اب کوئی نہیں سب نوٹکیاں اپنے اپنے مقاصد پورے کرنا چاہ رہی ہیں ۔
واپس کریں