مہمان کالم
میں زمانے کی تلخیوں سے لڑ رہا تھا ،
تیرے خیال نے آ کر اچھا نہیں کیا
تیر اخیال گیا ہی کب ؟تو تو خیالوں میں رہنے والا ہی نہیں دلوں کا حکمران بھی ہے تو تھا جب تک رنگ جہان و بو میں تب تک تیرا رتبہ پیر والا تھا چار جون 2017کو جب تو رخصت ہوا تب سے اب تک تو دلوں کا حکمران بن گیا تین دہائیاں پہلے جب ہمارا بچپن تھا تب تیری جوانی تھی اسی جوانی میں ہم تیرے مرید بنے شاہد اسی لیے کسی شاعر نے کہا ۔
اک سفر اچھا لگا ،۔۔اک ہمسفر اچھا لگا
تیرا سفر واقعی اچھا تھا تو ہمیں بھی تیری ہمسفری پہ ناز تھا گئے تیری موت والے سال اٹھارہ مئی کو تیرے ساتھ آخری نشست ہوئی تھی کسی نے مذاق میں تجھ سے ناراضگی کا اظہا ر بھی کیا تو ہنسی خوشی گپ بھی لگائی نہ جانے یہ حادثہ کیسے ہوا کہ اس آخری ملاقات میں مجھ جاہل کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ہم تیرے ساتھ ایسے ہیں جیسے امام کے پیچھے نمازی ہم نے بھی نیت باندھی تھی اور آج تک تیرے ساتھ ہیں ایک عشرہ گزرایہ درد ناک اطلاع ملی تو کومہ میں چلا گیا ہے پوری زندگی پتھر اور چٹان بن کر حالات کا مقابلہ کرنے والا بستر مرگ پہ تھا آج پھر میری ہمت جواب دے گئی ہنستے کھیلتے قہقے لگاتے سردار آفتاب تجھے اس حال کیسے دیکھتا ؟اس حال میں دانش ریاض کو بھی دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی تھی تو قائد تحریک امان صاحب کی عیادت بھی نہ کی جا سکی ایک محسن تھا تو دوسرا رہبرتحریک اور تُو پیر و مرشد جو تھا اب پھر جون کا مہینہ آیا پھر رمضان کی مبارک ساعتیں آئیں اور چلی گئیں پھر افطاری اور سحری کے چرچے رہے لیکن تیری افطاری ابھی بھی نہیں ہوئی نہ جانے کتنا عرصہ قیامت کو باقی ہے ،تیری افطاری اب وہیں ہونی ہے ہاں اب اپنی افطاریوں میں تیری یاد بھی آتی ہے اس جون کے مہینے میں سخت دھوپ اور گرمی میں میری روح کھچ کر آنکھوں میں آجاتی ہے میں چشم نم میں سردار آفتاب تیرا پر نُور چہرہ محسوس کرتا ہوں اور پھر میری نس نس اس مرد قلندر کے لیے جنت کی بالانشینی کے لیے دعا کر تی ہے آج پھر آگ برساتی ،تپتی اور جھلسادینے والی لو میں چار جون آیا ہے ہر برس یہ تاریخ ایسے ہی موسم میں آئے گی ہم سردار آفتاب کو یاد کرتے ہیں تو جسم و جان میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے ایک اور برس گزر گیا ایک اور نسل جواں ہو چلی ذاکر مو سی اور عادل ڈار، جنید صحرائی کی جدائی کا زخم بھی لگ چکا کہیں اور "پیارے"بھی تیرے پاس آ پہنچے۔ مگر سردار آفتاب کی یادیں محو نہیں ہوئیں وہ لوگ جو انھیں جانتے اور پہچانتے تھے انکے ذخم پھر ہرے ہو گئے ایک ایسی خلش ہے جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی جائے گی میں دھرتی ماں کی آزادی کی تحریک اور اسکی وحدت کے خلاف سازشوں کی روک تھام کے لیے کسی سردار آفتاب کو نہیں پاتا دکھوں اور تکالیف کے صحرا میں آبلہ پا عوام کے لیے کوئی دوسرا سردار آفتاب نظر نہیں آتا میں عالم تصور میں جنت کی من پسند زندگی سے لطف اندوز ہوتے سردار آفتاب سے پوچھتا ہوں تمھارا خلاء پر کیسے ہو گا ؟اس ہجوم بے کراں میں چیختے چلاتے دھاڑتے اور منہ سے الزامات کی جھاگ اڑاتے رہبری کا دعوی کرنے والوں کی بہتات ہے لیکن ادراک کرنے والا کوئی نہیں اخلاق سے عاری اور ذاتی مفاد کے کیچڑ میں لت پت ان مداریوں کی تعداد دن بدن بڑھتی ہے سردار آفتاب کے لیے دل میں احساس کی چھبن مجھے بے چین کر دیتی ہے اور میں پیر و مرشد کو پہلے سے زیادہ یاد کرتا ہوں جو کنول کا پھول تھا جس کے چاروں طرف بدبودار کیچڑ تھا اس کیچڑ میں پلنے والے گندے کیڑے اس کو آلودہ کرنے بظاہر کامیاب رہے آج پھر اس کی کمی محسوس ہوئی جب بھارتی جارحیت کو ایک مہینہ گزر چکا مگر آزادی پسندوں کا بیانیہ تک سامنے نہیں آیا اس سکوت میں کوئی ایسا نہ تھا جو ایسے ہجوم کو سنبھالتا جو ایک ناحق پراکسی وار کی صورت سامنے آیا ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس خاموشی نے تیرے ''فلسفہ '' کو زندہ کر دیا کہ کارکن طاقت ہیں کہ قیادتیں ایک سراب نام نہاد ڈسپلن کو جو اصل میں قیادت کی آمریت کا دوسرا نام ہے کی دھجیاں ہی نہیں بکھریں جوتے کی نوک پر ڈسپلن کو مارا گیا اور مختلف آزادی پسند دھڑوں سے وابستہ کارکنان نے پیغام دیا کہ ہم کشمیری ہیں لکھن پور سے گلگت تک سارا کشمیر ہمارا ہے ہمارا دشمن سانجھا ہے ہماری لڑائی مشترک ہے اب کی بے حسی پر زمانہ ایک دکھ بھی لے چلا جو تیرا دکھ تھا حالیہ بھارتی جارحیت اور دونوں اطراف معصوم عوام کی شہادت پر جسطرح اسکے نام لیواسرکاری ننگے ہوئے آج دل نہیں چاہ رہا کہ تیرے حوالے سے وہ دکھ سامنے لاکر ننگوں کو بر ہنہ کر دوں انہوں نے جب تک تو زندہ تھا تیرے ساتھ وہ سلو ک کیا جو محاذ رائے شماری نے مقبول بٹ کی گرفتاری کے بعد اُسکے ساتھ کیا تھا اور تیرے مرنے کے بعد یہ سیاسی یتیم تیرے ساتھ وہ کر رہے ہیں جو وادی میں انہوں نے جنرل بشارت رضا کی شہادت کے بعد اور عبدالقادر راتھر کی موت کے بعد اُسکے ساتھ کیا لیکن شکوہ اس لیے نہیں کہ تنخواہ دار جو حادثاتی لیڈر بنے ہیں اُنکی اوقات ہی یہی ہے کہ وہ ایسا کریں لیکن ایسا کرنے سے کچھ نہیں ہو گا مقبول بٹ کی شہادت پر بھی تو وادی اور جموں خاموش تھے اور آج اُنکی مرضی ہے کہ مقبول بٹ صرف اُنکے ہیں مجھے آج سیاسی یتیموں کی طرف سے چپ کا روزہ رکھنے پر پر 2005کا وہ وقت یاد آتا ہے جب سب سے پہلے تو نے یاسین ملک کو پاکستان آمد پر استقبالیہ دے کر دوٹوک باور کروایا تھا کہ دھڑے بندی سے نکلے بغیر اور ایک ہوئے بغیر منزل کا حصول ممکن نہیں آج المیہ ہے کہ یاسین ملک کو غدار کہنے والے اس کے مشیر اور نمائندے بنے ہوئے یہاں اب کی بار پھر تیری یاد بھی آئی اور کمی بھی محسوس ہورہی ہے جب ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے کہ نعروں تلے اس پار اور ہم ہندوستانی ہیں ہندوستان ہمارا ہے کہ جبری نعرے تلے اس پار کشمیری زر خرید بنائے جا چکے آج تو زندہ ہوتا تو ویسا ہی جواب دیتا جیسے ذوالفقار علی بھٹو کو میرپور میں این ایس ایف والوں نے دیا تھا اور مظفر آباد میں شہید گلنواز بٹ نے مرحوم عبدالقیوم خان کو دیا تھا یا چند سال قبل نعیم بٹ کے قتل میں ملوث ڈپٹی کمشنر پونچھ کو سترہ دن اپنے دفتر میں بیٹھنے سے روک کر اہلیان راولاکوٹ نے دیاجن کا دعویٰ ہے کہ جسکی گردن پر جسکا پاوں ہے اُسے نجات لینی چاہیے لیکن یہاں پاوں والوں نے گردن دبو چی ہی نہیں ساروں کو ننگا بھی کر دیا جس کا بڑا ثبوت سجاد ریشم اور زاہد قریشی کی ناحق اموات سے لیکر جبران نسیم کی معصوم زندگی کو داؤ پر لگانے کے ساتھ سانحہ حسین کوٹ ہے لیکن راولاکوٹ سے لیکر جینوا تک سب خامو ش ہیں کہ کس چالاکی سے پر امن کشمیر کو وانا اور سوات بنایا جا رہا ہے اب جب دھر تی ماں جموں کشمیر پر دو ممالک آپس میں دست و گریباں ہیں ہند مخالف اور پا کستان نواز اس پر شا دیا نے بجا ر ہے ہیں تو دوسری طرف لداخ پر چین کا قبضہ ہو نے جا رہا ہے آ زادی کے دعوے دار چین کی اس جا رحیت پر اور ہندو ستان کی منا فقت کے ساتھ کہیں سال سے یاسین ملک شیخ نذیر ،فارو ق ڈار ،ظہو ر بٹ سلیم نھنا جی یاسین بٹ بلال صدیقی ،سمیت ساری آزادی پسند قیادت کو دلی سے جموں تک جیلوں میں بند رکھنے کسی قسم کی سیاسی سر گرمی نہ کرنے دینے اور اب اشرف صحرائی جیسے سنئیر آ زادی پسند کو شہید کرنے کے بعد اس کے دونوں بیٹوں کو کرونا مرض میں مبتلا ہونے کے باوجو د جیل میں ڈالے جانے کے بعد ہو نے والی خاموشی اور چپ کے رو زہ پر تیری یاد آ تی ہے ہو سکتا ہے تو زندہ ہوتا توشا ہد سب کو ایک آ وازمزا حمت پر راضی کر جا تا اور خامو شی کا یہ سکو ت نہ رہتا ۔۔۔۔
یہ میں اور آپ بوجھ ہیں زمین کا ۔۔۔زمین کا بو جھ اٹھا نے والے کیا ہوئے ۔۔۔ قدرت کے ہر کام میں بہتری ہے اچھا ہی ہوا تو زندہ نہیں رہا ورنہ آج تجھے شرمساری کا سامنا ہوتا ۔۔تو تو کارکن تھا یہاں تو قیادت ہی چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے تجھ سے حسد کرنے والے بھی آج خوش ہیں قربانی کے جانور پر بکنے والے اور ماہانہ تنخواہ لینے والے آج قیادت کے منصب پر فائز کہلاتے ہیں انکی اہلیت یہ ہے کہ 18سال کی معصوم عمر میں جا کر 43سال کی عمر میں لوٹنے والے ساجد بخاری جو بھارتی جیلوں میں قید کاٹنے والا سب سے طویل العمر قیدی ہے کا استقبال بھی مہاراجہ کے جھنڈے اٹھا کر کیا گیا تو نہیں تو کوئی پوچھنے والا نہیں ،ہاں قرآن جب یہ کہتا ہے انسان مرنے کے بعد روز قیامت واپس اٹھایا جائے گا کہنے والے جب یہ کہتے ہیں کہ جس حالت میں موت آتی ہے انسان اسی حالت
میں اٹھایا جائے گا تیری موت تو روزے کی حالت میں آئی واپس تو اس حالت میں اٹھایا جائے گا اس سے بڑی سعادت کیا ؟شاہد اس کی وجہ تیر احسن خلق تھا ،کاش ایسا حسن خلق مجھے اور تیرے سب ہی جاننے والوں کو میسر آسکے ؟
ٓٓٓاک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا ۔۔۔۔دکھوں کو ہمارے دل کا مہمان کر گیا
تھا تو تھی ہر اک شے میں کشش بہت ۔۔۔گیا تو سب کچھ بے جان کر گیا
واپس کریں