دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
معصوم چہروں پر چھائے خوف کے سائے۔ساجد الرحمان
مہمان کالم
مہمان کالم
ضلع میانوالی کے مختلف علاقوں میں حالیہ دنوں ایسے دل دہلا دینے والے واقعات سامنے آئے ہیں جنہوں نے والدین اور معاشرتی طبقات کو گہری تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ بچوں کے ساتھ پیش آنے والے یہ افسوسناک واقعات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم بطور معاشرہ اپنی ترجیحات پر نظرِ ثانی کریں اور بچوں کی حفاظت کو اولین ترجیح دیں۔ ایک واقعہ تھانہ کالاباغ کے علاقےکچھ تندرخیل میں پیش آیا، جہاں ایک بچے کو مبینہ زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ پولیس نے مقدمہ درج کر کے مشتبہ شخص کو گرفتار کیا۔دوسرا واقعہ تھانہ مکڑوال کے علاقے گلاخیل میں سامنے آیا جہاں ایک بچے کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی گئی۔ پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے مقدمہ درج کر کے مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس حکام نے یقین دہانی کرائی ہے کہ انصاف کی فراہمی میں کوئی کوتاہی نہیں برتی جائے گی اور تمام قانونی تقاضے پورے کیے جا رہے ہیں تاکہ ملزم کو قرار واقعی سزا دی جا سکے اور بچوں سے غیر اخلاقی سلوک کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔یہ دونوں واقعات ہمارے لیے محض خبروں کی شہ سرخیاں نہیں، بلکہ ایک اجتماعی بیداری کی پکار ہیں۔ دیہی اور نیم شہری علاقوں میں ایسے مسائل کی سنگینی اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب معاشرتی دباؤ یا لاعلمی کی بنیاد پر ایسے معاملات کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں ریاستی اداروں، ضلعی انتظامیہ، چائلڈ پروٹیکشن بیورو اور عوام کو ایک صفحے پر آ کر اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔پاکستان میں تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد ایک المیہ بن چکی ہے، جو معاشرتی، معاشی اور اخلاقی اعتبار سے ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق، ملک بھر میں 5 سے 16 سال کی عمر کے تقریباً 2 کروڑ 28 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے، جو کہ اس عمر کے بچوں کی کل آبادی کا 44 فیصد ہیں۔ یہ صرف ایک تعلیمی مسئلہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی المیہ ہے جو بچوں کے مستقبل کو تاریکی میں دھکیل رہا ہے ۔ صوبہ پنجاب، جو تعلیمی لحاظ سے دیگر صوبوں کی نسبت بہتر سمجھا جاتا ہے، وہاں بھی لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ان بچوں کی زندگی غیر یقینی خطرات سے دوچار ہے، جن میں جنسی استحصال، جبری مشقت، اغوا اور جرائم میں استعمال جیسے سنگین مسائل شامل ہیں۔ تعلیم سے محروم بچے سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر بچے سڑکوں پر، ورکشاپوں میں، ہوٹلوں میں یا گھروں میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جہاں ان کے بنیادی انسانی حقوق پامال کیے جانے کا خدشہ رہتا ہے ۔ پنجاب حکومت نے بچوں کے تحفظ کے لیے بعض اقدامات کیے ہیں، جن میں نمایاں اقدام "پنجاب ڈیسٹیٹیوٹ اینڈ نیگلیکٹڈ چلڈرن ایکٹ" ہے۔ اس قانون کے تحت "چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو" قائم کیا گیا، جو بچوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل ہے۔ تاہم، یہ حقیقت ہے کہ دیہی علاقوں میں اس قانون کا مکمل اور مؤثر نفاذ ایک بڑا چیلنج ہے۔ آگاہی کی کمی، سماجی دباؤ اور بعض اوقات متعلقہ اداروں کی عدم دلچسپی بچوں کو مزید غیر محفوظ بناتی ہے۔ معاشرے میں بچوں کے حقوق کے بارے میں شعور بیدار کرنے کے لیے مذہبی رہنماؤں، اساتذہ، اور مقامی کمیونٹی لیڈروں کو آگے آنا ہوگا۔ گوجرانوالہ اور لاہور جیسے شہروں میں مذہبی رہنماؤں نے بچوں کے تحفظ پر خطبات دیے اور آگاہی واکس کا انعقاد کیا گیا، جس سے معاشرتی سوچ میں مثبت تبدیلی کے آثار نظر آئے۔ اسی طرح، ملتان میں "کھیلو محفوظ رہو" کے عنوان سے ایک مہم کا آغاز کیا گیا، جس میں بچوں کو نہ صرف جسمانی سرگرمیوں میں مشغول کیا گیا بلکہ انہیں خود اعتمادی اور خطرے کی صورت میں درست ردعمل کی تربیت بھی دی گئی۔ یہ مہمات اس بات کی دلیل ہیں کہ بچوں کی حفاظت ایک اجتماعی کوشش سے ہی ممکن ہے۔ میڈیا کا کردار بھی اس ضمن میں انتہائی اہم ہے۔ میڈیا کے ذریعے بچوں کے حقوق، تحفظ، اور ان سے جڑے مسائل کو اجاگر کیا جا سکتا ہے، جو کہ عوامی رائے کو ہموار کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسی آگاہی مہمات کو فروغ دے جن کے ذریعے والدین، اور عام شہریوں کو بچوں کے ساتھ ناروا سلوک کی نشاندہی اور اس کے تدارک کے طریقے سکھائے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے ایک محفوظ، دوستانہ اور تعلیمی ماحول فراہم کیا جائے تاکہ وہ خود کو محفوظ محسوس کریں اور بہتر مستقبل کی طرف گامزن ہوں۔ اگرچہ حکومت نے بچوں کے تحفظ کے لیے قانونی اور انتظامی اقدامات کیے ہیں، لیکن زمینی سطح پر ان کا نفاذ ابھی بھی مطلوبہ نتائج نہیں دے سکا۔ دیہی علاقوں میں رائج دقیانوسی سوچ، غربت، اور تعلیمی نظام کی کمزوریاں بچوں کے بنیادی حقوق کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ بعض اوقات والدین خود بچوں کو مزدوری پر لگا دیتے ہیں یا ان کی تعلیم کو غیر ضروری سمجھتے ہیں، جس کا نقصان ان بچوں کی پوری زندگی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ بچوں کا تحفظ صرف حکومت یا اداروں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ یہ معاشرے کے ہر فرد، ہر خاندان، اور ہر طبقے کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے رویوں، سوچ اور عمل پر نظر ثانی کریں، اپنی گلیوں، مسجدوں، سکولوں اور گھروں کو ایسا ماحول دیں جہاں بچے خود کو محفوظ اور قابلِ قدر محسوس کریں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم بطور معاشرہ محض ردعمل کی بنیاد پر نہیں بلکہ پرو ایکٹو حکمت عملی اختیار کریں۔ ہمیں ایسے قوانین، نظام، تربیتی اقدامات اور آگاہی مہمات کو فروغ دینا ہوگا جو کسی بھی سانحے کے رونما ہونے سے پہلے ہی معاشرے کو محفوظ بنانے میں مدد دیں۔ بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں، جن میں تعلیمی اداروں میں آگاہی سیشنز، کھیلوں کی سرگرمیوں کو فروغ، تھراپی و کونسلنگ سینٹرز کا قیام، اور کمیونٹی کی سطح پر والدین اور اساتذہ کی تربیت شامل ہو۔ متعلقہ اداروں خصوصاً ضلعی انتظامیہ، محکمہ تعلیم، چائلڈ پروٹیکشن بیورو، پولیس اور سماجی تنظیموں کو مل کر بچوں کے تحفظ اور معاشرتی بہتری کے لیے مربوط اور پیشگی کوششیں کرنا ہوں گی، تاکہ ہم ایک محفوظ، صحت مند اور مہذب معاشرہ قائم کر سکیں۔ یہی بچے ہمارا مستقبل ہیں، اور اگر ہم آج اس پر توجہ نہیں دیں گے تو کل کا پچھتاوا ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آنے دے گا۔
واپس کریں