مہمان کالم
اس وقت ایک بحث ہے سردار کون ہے ہر ایک کی اپنی دلیل ہے مگر میرا دعوی ہے کہ وقت کا وہ سردار ہے کیوں۔اس لیے کہ للکارا اور پھر ڈٹا اور ڈٹ جانے پر امر ہو گیا آ ج نو سال گذرے اس کا کہا سچ بن چلا کہ کشمیری قوم پرستوں کوجب لگیں گی وہ خود اکھٹے ہو جائیں گے اس کی فکرنہ کرومجھے اندازہ نہیں تھاکہ جوشخص یہ کچھ کہہ رہاہے وہی قوم پرستوں کے اکھٹا ہونے کاباعث بن سکتاہے نو سا ل قبل 12 مئی اور 13 مئی کی درمیانی رات جب مجھے اس کی اطلاع ملی کہ وہ ماردیاگیاتومیرے لیے یہ قطعی انہونی نہ تھی نہ جانے وہ پہلے کیوں نہیں ماراگیاوہ”ناپسندیدہ“ تھااس لیے اسے ماراہی جاناچاہیے تھا۔آخرکاروہ ماردیاگیالیکن حقیقت میں مر کر وہ امرہوگیا۔کیاوہ،،آزادکشمیر،،میں شہیداعجازڈاربن پائے گااوراسلام آبادسے آزادی کے لیے فیصلہ کن جنگ کاہیروٹھہرے گاسوال یہ ہے؟ سترہ سال اس کے ساتھ کم وبیش بہت قریبی تعلق رہاکچھ زیادہ ہی سیانوں کے کہنے پرمیں بھی اسے کچھ اورسمجھتارہالیکن عمل میں ایسانہیں تھااس کی پہلی کتاب ”کون آزادکون غلام“کوجب میں نے پڑاتب سے آج تک وہ ایک سچاآزادی پسنداورمقبول بٹ کاپیروکارنظرآیازندگی کاایک طویل ترین وقت غریب محنت کش یعقوب خان کے بیٹے نے عرب تپتے صحراؤں میں گزارااورپھر زندگی کے آ خری قریباًپندرہ سال پاکستان میں روزگارکے لیے قیام پذیررہاتوساتھ ہی تحریک آزادی کے لیے ایک مشنری جذبے سے کام کرتارہاگوکہ اس کے پاس کوئی بڑی سیاسی پارٹی نہیں تھی لیکن جموں کشمیرکی تاریخ کے سب سے بڑے نام بابائے قوم شہیدمحمدمقبول بٹ کے فرزندشوکت مقبول بٹ اس کے کارواں کاحصہ تھے۔کم علم اورغریب گھرانے کایہ فردتاریخ میں پہلابڑاکام یہ کرگیاکہ آزادکشمیراورگلگت بلتستان کے درمیان دوریوں کاخاتمہ کیا۔ان دونوں خطوں کی قوم پرست اورترقی پسندجماعتوں کااتحاد”اپنا“بنایاجس نے گلگت بلتستان کے لوگوں کے دلوں میں کشمیریت کاجذبہ اجاگرکیاجب وہ اس دنیاسے رخصت ہواتب بھی ایک بارپھراس اتحادکی”پگ“اس کے سرتھی اپنی بساط کے مطابق آزادکشمیرمیں لینٹ آفیسروں کے خاتمے چاراکتوبر1947ء کی انقلابی حکومت کی بحالی کے لیے اس کی کوششیں تاریخ کاحصہ بن گئیں اپنی شہادت سے ایک سال قبل آزادکشمیراوروادی کوملانے وادی نیلم میں سیزفائرکے کنارے ”ملاپ مارچ“کااس کے ہاتھوں انعقادہواجس میں ساتھ ہی گلگت سے بھی لوگوں نے شرکت اوروحدت کشمیرکاعملی مظاہرہ کیا اپنی موت سے قبل گزشتہ کچھ عرصے سے وہ آزادکشمیرگلگت بلتستان کے ساتھ جموں،پونچھ اورلداخ کی سیاسی اورنظریاتی قوتوں کاایک اتحادبنانے کوشاں تھاجونام نہادحریت کانفرنس کی جگہ حقیقی معنوں کشمیریوں کی نمائندگی کاپیغام لیے تھا۔یہی وہ بات تھی جو”وکیل“اور بڑے قابض دونوں کوناپسندتھی۔ ان کی شہا دت سے قریباًاڑھائی سال قبل ان کاپاسپورٹ ضبط کرکے ان کانام ای سی ایل میں ڈالاگیاجس کوخارج کروانے اسلام آبادہائی کورٹ کاانہوں نے دروازہ کھٹکٹایا ان کی شہادت سے کچھ روز قبل ان کے حق میں فیصلہ ہواسوال یہ پیداہوتاہے کہ اگروہ بیرون ملک چلے جاتے تووہ اسلام آبادکوکتنانقصان دیتے؟کیااسلام آبادان کانقصان برداشت نہیں کرسکتاتھاوہ الطاف حسین حربیارمری سے بھی خطرناک تھے شاہدایسانہیں اس موت سے قوم پرست ایسے خوف زدہ ہوئے کہ اسلام آباد سے ”آزادی“کی بات نہ کی جائے ورنہ انجام ایساہوگا موت سے محض چندماہ قبل جب جموں سے غیرمسلم زعماء پاکستان آئے اوروہ اپنی دھرتی ماں میرپورگئے واپسی پرانہیں گرفتارکیاگیاتوساتھ عارف شاہدکوبھی زنداں کی نذررکھاگیاوجہ صرف یہ تھی کہ جموں اورآزادکشمیرکے درمیان قربتیں ”راولپنڈی“اور”اسلام آباد“کوپسندنہیں تھی اورآخراس کاانجام ”گمنام قاتل“نے اسی طرح سامنے لایاجس طرح لیاقت علی خان میرمرتضیٰ بھٹواورمحترمہ بے نظیربھٹوکووحشیانہ اندازمیں موت کے گھاٹ اتارکرسامنے لایاگیاتھاتودوسری طرف ڈاکٹر عبدالاحد گرو پروفیسر عبدالاحد وانی، عبدالغنی لون،مولاناشوکت شاہ، ڈاکٹرغلام قادروانی غلام نبی بٹ مقبول ملک اور این ایچ وانچو اور اب قاری سردار وحید نورجیسے کہیں ایک نامورکشمیریوں کوشہیدکرکے سامنے لایاگیاتھاوہی پیغام عارف شاہدکو قتل کرکے سامنے لایاگیا تھاوہ عارف شاہدجس کے نظریات اورسوچ اپنی جگہ لیکن اس کے خلوص اوروطن سے محبت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ جب افضل گروکوپھانسی دی گئی ردعمل میں محمدیاسین ملک نے اسلام آبادمیں بھوک ہڑتال کی توعارف شاہدحکمت عملی سے اختلاف کے باوجودیاسین ملک کے اس عمل کی حمایت میں وہاں جاپہنچے دردصرف کشمیریت کاتھاآزادکشمیرکی سیاست میں بدترین سیاسی مخالف اورمسلم کانفرنس کے سپریم ہیڈعبدالقیوم خان صاحب انکی شہادت سے چند ماہ قبل بیمارہوکرنازک حالت میں اسلام آبادکے ایک ہسپتا ل میں زیرعلاج تھے عارف شاہدان کی عیادت کے لیے وہاں جاپہنچے ۔خالدابراہیم خان سے لے کرراجہ فاروق حیدراوراعجازافضل تک روایتی پارٹیوں سے لے کرانقلابی سیاست کے دعویداروں تک گلگت کے نادرحسن اوروجاہت حسن سے لے کروادی کے ہاشم قریشی،شبیرشاہ، فاروق عبدللہ،بیگم خالدہ ضیاء،مظفرشاہ توشمالی کشمیرکے نوازخان ناجی جموں کے پروفیسربھیم سنگھ ایڈووکیٹ،ویدبھیسین سمیت کوئی نامورنام ایسانہ تھاجس کے ساتھ محض ”کشمیریت“کی بناپران کاتعلق نہ رہاہو انکی شہادت سے چنددن قبل کی بات ہی ہے کہ مظفرآبادمیں ایک طالبہ کے ساتھ وزراء کے روپ میں بیٹھے درندوں نے جب جنسی زیادتی کی توان کی غیرت کھول اٹھی اورفوری طورپرنہ صرف انھوں نے اپنے ردعمل کا بے باکی سے اظہارکیابلکہ کچھ اوربھی ان کی خواہش تھی جس کااظہارکرناآج میرے لیے ناممکن ہے۔عرب کے مشہور شاعر نزار توفیق نعمان کی نظم کے ایک بند کی حارث خلیق کی طرف سے کیے گئے ترجمے کو شائد شہید عارف سے منسوب کرنا غلط نہ ہو۔۔۔۔جہاں سوچنے اور لکھنے والوں کا مقدر۔۔۔۔ارض مقتل ہے۔۔۔جہاں سب قید ہیں۔۔۔۔اور جبہ و عرقہ نے تازہ لفظ پہ پہرے بٹھانے ہیں۔۔۔جہاں کچھ پوچھ لینا لائق تعزیر ٹھہرا ہے۔۔۔وہاں مجھ کو اجازت مل سکے گی کیا؟عارف شائد کا سوال تھا۔جو ایک اندھیر ے معاشرے سے آزادی سے حق لینے کی اجازت سے طالب تھے نہ انکو اسکی اجازت مل سکی اور ساتھ ہی آئندہ ایسی جرات کرنے والوں کو پیغام دیا گیا کہ اب سوچو گے ایسے؟ ذاتی زندگی میں وہ ایک نفیس،ہمدرداورمخلص ترین انسان تھے وہ سب کچھ جوبطورہمدردانسان اس سارے تعلق کے دورانیے میں ان کامیں نے دیکھاوہ آج افسردگی کی عالم میں لکھناممکن نہیں البتہ اتناضرورلکھناحق سمجھتاہوں کہ قائد تحریک مرحوم امان صاحب سابق صدرآزادکشمیرمحمدیعقوب خان عارف شاہد ان ان گنتی کے چندلوگوں میں نمایاں ترین ہیں جوضرورت مندوں اورغریبوں کے لیے بلاتخصیص اوربلاتفریق اس حدتک جاتے ہیں جس کاتصورنہیں اورشاہدیہی وجہ ہے کہ مختلف علیحدہ نظریات کے حامل ہونے کے باوجودتینوں میرے ”محسن“ہیں۔آج نواں سال ہے کہ اس تکون میں ڈھینٹ پڑ گیاہے ایک تنظیم سے اس کاسربراہ،ایک بیٹے سے اس کاباپ،ایک ماں سے اس کابیٹا،ایک خاتون سے اس کاجیون ساتھی،ایک قوم سے اس کالیڈر،ایک نظریے سے اس کاترجمان چھیناگیامجھ سے بھی میراایک ایسادوست چھیناگیاجس کاعمرسے میرابہت فرق لیکن تعلق میں بہت قربت اس کے عظیم ہونے کااس سے بڑھ کراورکیاثبوت کہ جب انہوں نے راولاکوٹ میں جدیدنوعیت کاپہلاپرائیویٹ گیسٹ ہاؤس بنایاتواس کاافتتاح کسی سیاسی لیڈریاسرمایہ دارسے کروانے کے بجائے ”اپنی ماں“سے کروایااورآخروقت تک ”مائے“کی فکراس کوکھائے جاتی رہی آج اس کی ماں اس کے غم میں کھوئے ہوئے ہے خداکسی ماں کوایسازخم نہ لگائے،میں نے اس سمیت کسی کوکبھی سردارنہ مانانہ لکھالیکن آج مجھے اس کی موت نے مجبورکیاکہ میں اسے جدیددورکا”سرِدار“مانوں اس لیے نہیں کہ اس نے سبزعلی خان اورملی خان کے قبیلے میں جنم لیابلکہ اس لیے کہ اس نے غاصب کے ہاتھوں باوقارموت پاکرثابت کیاایسی موتیں صرف ”سرِداروں“کوملتی ہیں۔ آج جب انکی شہادت کونو سال گزر گئے میرے زہن میں ایک سوال شدت سے انگڑائیاں لے رہا ہے کہ سردار عارف شائد اپنی زندگی کے آخری عرصہ میں آل پارٹیز نیشنل الائنس کو جموں اور لداخ تک وسعت دینے جا رہے تھے وادی میں تو بھارت کی مخالفت بہت سارے کرتے ہیں لیکن جموں اور لداخ میں اور وہ بھی نمائندہ غیر مسلم قیادت کی طرف سے آج تک ایسی مخالفت دیکھنے نہیں ملی جموں اور لداخ کے غیر مسلم گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے آزادی پسندوں کے ساتھ ملکر آزادی کا جب نعرہ لگاتے تو حقیقی معنوں وحدت کا تصور ابھرتا اسلام آباد سے زیادہ اسکا نقصان ہندوستان کو ہوتا کہ غیر مسلم بھی اب آزادی مانگ رہے ہیں کہیں یہ تو نہیں کہ ہندوستان نے ہی موقع سے فائدہ اٹھا کر سردار عارف شائد کو راستے سے ہٹایا ہواس قتل پر ہندوستانی میڈیا مکمل رہا دوسری طرف سید علی گیلانی نے ہندوستان کے قبضے میں ہوتے ہوئے اس قتل کی مذمت کی تو خالد ابراہیم خان جیسے پاکستان نواز نے بھی افسوس کرتے ماتم کیا۔ راجہ فاروق حیدر میری موجودگی میں روئے تو دوسری طرف نواں سال ہے کہ جس کی گردن پر جس کا پاوں ہے اس سے پہلے نجات لینے کے دعوے دار اور پار کی تحریک کو پراکسی وار کہنے والے سردار عارف شاہد کا یوم شہادت منانے سڑکوں پر آنا بھی گوارہ نہیں کر رہئے اگر اسلام آباد نے یہ قتل کیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اسلام آباد کو غاصب کہنے والے خاموش بیٹھے ہیں۔ نو سال گزر جانے کے باوجود جب ''اپنا'' کے قائدین اتحاد کا دائرہ کار جموں اور لداخ تک نہیں لے جا سکے تو بہت سارے سوالات جنم لے رہے ہیں ۔ عارف شائد کے یوم شہادت پر خود احتسابی کا تقاضا ہے کہ با خبر ساتھی اور مشن کی تکمیل کے لیے وراثت کے دعویدار بنے اس کا بھی جواب دیں نو سال بعد آج اس کے بنا ہر طرف خاموشی ہے اسلام آباد میں حقیقی آزادی کا پیغام اجاگرہو جانے کے بجائے این جی او کے زر خرید مسئلہ کشمیر”حل“ کروانے کوشاں ہیں تو آزاد کشمیر میں بھی ان کی ”در اندازی“ جاری ہے اس کے طعنہ دینے والے اور خود کو حقیقی سمجھنے والے محض فیس بک تک محدود ہیں بابائے قوم مقبول بٹ شہید کی اپنی تحریر کردہ کتابوں میں کون ہوں اور سری نگر جیل سے فرار کی کہانی پر وزارت داخلہ نے پابندی لگوائی الیکٹرنک میڈیا پر ایک ریٹائرڈ جنرل اور کچھ لوگ تسلسل سے گنگا ہائی جیکنگ کو بھارتی سازش قرار دے رہے ہیں (حالانکہ سپریم کورٹ آف پاکستان گنگا ہائی جیک کرنے والے حریت پسندوں محمد مقبول بٹ اشرف قریشی، ہاشم قریشی کو محب وطن حریت پسند قرار دے چکی ہے) اب کی بار ”نامعلوم“ ہاتھوں سے جب سیزفائر لائن پر دو ملکوں کی گولہ باری اور اس کے نتیجہ میں نہتے کشمیریوں کی شہادتوں اور املا ک کی تباہی کے بعد یاسین ملک کو عمر قید اور فاروق ڈار بٹہ کراٹے کو بھارت جب پھانسی دینے جا رہا ہے اور عارف شاہد کی شہادت پر خاموش آ زاد کشمیر کی طرح وادی جموں لداخ میں جاری خاموشی سے پھر ثابت ہوا کہ غلامی کیا ہے! اور یہ کہ عارف شاہد کا موقف درست تھا کہ جس کی گردن پر جس کا پاؤں ہے اُس سے نجات لینا ہی اُس کا ذمہ ہے ان واقعات پر خاموشی ہی نے عارف شاہد کی کمی کو سامنے نہیں لایا بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ایک نوجوان خاتون کے ساتھ بھارتی فورسز کی دست درازی اور اس واقعہ پر احتجاج کرنے والوں پر گولیاں چلا کر ایک ستر سالہ خاتون سمیت پانچ نوجوانوں کی شہادت اور بھارت میں بڑھتے کورنا مرض کے باوجود ظالم بھارتی فورسز کی طرف سے حالیہ رمضان سیاب تک شہید نوجوانوں کی شہادتوں پر بھارتی مقبوضہ کشمیر بھر اور ساتھ آزاد کشمیر میں جو خاموشی دیکھنے ملی تو دوسری طرف دختر کشمیر افشاں نے سوشل میڈیا پر یہ پیغام دے کر دنیا کو حیران کر دیا کہ بھائیوں کا خون بہت بہہ چکا اب کشمیر کی بیٹیا ں قربانی دیں گی۔ میڈیکل کالج کی طالبہ نور فیاض پر اُس کے گھر سوپور میں جس طرح بھارتی فورسز حملہ کر کے تشدد کیا۔ آفریں اُس گھرانے کو کہ نور فیاض کی آنکھ متا ثر ہوئی تشدد سہا لیکن بھارتی درندوں کو رسوا کر کے بھیجا برہان وانی کے دوست 22سالہ عاقب مولوی کی نعش جب ان کے گھر پہنچی تو درندے ساتھ وہاں گے اُس ماں نے جوتے مار کر بھاگنے مجبور کیے کشمیر یونیورسٹی کا 32سالہ پر وفیسر ڈاکٹر رفیع بٹ جب قلم چھوڑ کر بندوق اُٹھاتا ہے اور 36 گھنٹے کی جدوجہد کے بعد شہید ہو جا تا تو وہ ان حالات میں یکجہتی کے لیے پھر عارف شاہد کی یاد آتی ہے کہ اگر عارف شاہد زندہ ہوتے تو اور کچھ نہ سہی جب افضل گرو کو پھانسی ہوئی عارف شاہد اسلام آباد دھرنا اور بھوک ہڑتال پر بھیٹے یاسین ملک کے پاس مجھ جیسوں کو لیکر جا پہنچے تھے آ ج جب یاسین ملک کو سزا سنائی جانے والی ہے عارف شاہد زندہ ہوتے میرا دعوی ہے اپنے چند سو کارکنوں کو لے کر نیلم میں جا کر احتجاجی دھرنہ دے کر سامنے پار یاسین ملک کی ہم آ واز قوم سے اظہار یک جہتی کرتے آج جب شمالی کشمیر جی بی کو ریاست سے الگ کرنے کی ناکام کوششیں ہو رہی ہیں۔وہ ہوتا تو آل پارٹیز نیشنل الائنس کی طرح کوئی محاز گرم کر کے ریاست کی جڑت کا باعث ضرور بنتا۔اب جبکہ اشرف صحرائی کا حراستگی قتل کر کے بھارت نے ان کے جسد خاکی کوگاؤں کی بجلی بند کرکے اندھیرے میں محض چند رشتے داروں کی موجودگی میں دفن کروایا وہ اگر ہوتا تو ضرور کورونا وباء کی پروا کیے بغیر احتجاج پر نکلتا۔ سِردار عارف شاہد کی قربانی کا تسلسل شمالی کشمیر میں حید ر شاہ رضوی اور وادی میں بابر جان قادری ایڈووکیٹ اور شجاعت بخاری نے اپنی جان قربان کر کے اور یاسین ملک بٹہ کراٹے شیخ نزیر نے برسوں سے زنداں کو قبول کر کے آگے بڑھا رکھا ہے۔ شائداسی کے لیے شاعرنے کہاہو
گنتی میں بے شمار تھے کم کر دیے گئے
ہم ساتھ کے قبیلوں میں ضم کر دے گئے
پہلے نظام عدل ہوا ہم سے انتساب
پھر یوں ہوا کہ ہم ہی ختم کر دیے گئے
ہر دور میں رہا یہ آئین منصفی
جو سر نہ جھک سکے وہ قلم کر دیے گئے
واپس کریں