جب ریاستیں ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں۔ عثمان چغتائی
مہمان کالم
جب ریاستیں ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو ان میں نجومی، بھکاری، منافق، ڈھونگی، چغل خور، بے دین قاری، درہم و دینار کے عوض فتویٰ فروش علماء، جھوٹے راوی، غنڈے، خودساختہ حق سچ کے دعویدار، زائچے بنانے والے، خوشامدی، موقع پرست سیاست دانوں اور افواہیں پھیلانے والوں کی بہتات ہوجاتی ہے۔" ابن خلدون
ذرا غور کیجیے — کیا یہ آج کا پاکستان نہیں؟
1. نجومی اور ڈھونگی کا کاروبار
ریاستیں جب عوام کو روزگار نہیں دیتیں تو لوگ قسمت بدلنے کے شارٹ کٹ تلاش کرتے ہیں۔ آج ہر شہر میں ’’جادو کا توڑ‘‘، ’’کالے علم کا علاج‘‘ اور ’’شادی جلدی کرنے کا تعویذ‘‘ بیچا جا رہا ہے۔ لاکھوں روپے لوگ ان جعلی نجومیوں کو دیتے ہیں، لیکن اپنی تعلیم یا ہنر پر لگانے سے گھبراتے ہیں۔
چین کے کسان نے اپنی زمین پر سرمایہ لگایا اور آج دنیا کو اناج بیچ رہا ہے، اور ہم نجومیوں پر پیسہ لگا کر اپنی تقدیر بدلنے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔
2. بھکاری ذہنیت اور مفت خوری
ریاست ناکام ہو تو بھکاری ذہنیت چھا جاتی ہے۔ آج ہر طرف ’’مفت بجلی‘‘، ’’مفت راشن‘‘ اور ’’مفت کھانا‘‘ کے نعرے ہیں۔ لوگوں نے سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے کہ محنت کے بغیر قومیں کبھی نہیں بنتیں۔
کراچی کی فیکٹریاں ہنر مند مزدور ڈھونڈ رہی ہیں، مگر لوگ کہتے ہیں: “جی، مزدوری سے بہتر ہے لائن میں لگ کر راشن لے لیں۔” یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی برآمدات آج بھارت اور ویتنام سے آدھی بھی نہیں۔
3. منافق اور موقع پرست قیادت
ریاستیں تب ناکام ہوتی ہیں جب لیڈرشپ موقع پرستی میں ڈوب جائے۔ آج سیاستدانوں کی جنگ مسائل پر نہیں بلکہ ایک دوسرے کو گالیاں دینے پر ہے۔ جلسے نعروں سے بھرتے ہیں، لیکن اسکول، اسپتال اور سڑکیں ویران پڑی ہیں۔
کاروبار میں بھی یہی حال ہے۔ ہماری کمپنیاں پروڈکٹ بہتر کرنے کے بجائے حریف کمپنی کو بدنام کرنے پر زور دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ٹاپ 100 برانڈز میں کوئی پاکستانی نام نہیں۔
4. افواہوں اور چغلیوں کا طوفان
ریاست کا ڈھانچہ کمزور ہو تو افواہیں سب کچھ کھا جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر دیکھ لیں: کسی نے لکھ دیا ’’ڈالر مہنگا ہو گیا‘‘، اگلے دن مارکیٹ سے مال غائب۔ کسی نے کہہ دیا ’’گھی شارٹ ہو جائے گا‘‘، اور اگلی صبح لمبی لائنیں لگ گئیں۔
امریکہ اور یورپ میں کسان اگلا بیج بونے سے پہلے بیس رپورٹس پڑھتا ہے، اور ہمارے ہاں کسان افواہ پر چلتا ہے کہ اس سال کپاس زیادہ لگانی ہے۔ نتیجہ؟ فصلیں برباد اور پیداوار کم۔
5. دین کو کاروبار بنانا
ابنِ خلدون نے فتویٰ فروش علماء کا ذکر کیا تھا۔ آج یہ ہمارے سامنے زندہ حقیقت ہے۔ منبر پر سچائی اور کردار سازی نہیں بلکہ سیاست، نفرت اور فرقہ واریت کی تقریریں ہیں۔
قرآن ہمیں محنت، دیانت اور انصاف سکھاتا ہے لیکن ہم نے دین کو کاروبار بنا دیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ نوجوان مذہبی قیادت سے بدظن ہو رہا ہے اور معاشرہ اندر سے کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے۔
6. تعلیم کا بحران — علم نہیں، ڈگریاں
پاکستان میں یونیورسٹیاں بڑھ رہی ہیں، لیکن علم کم ہو رہا ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان کے 60 فیصد نوجوان گریجویشن کے بعد بھی بنیادی پروفیشنل مہارت نہیں رکھتے۔
یعنی ہم "انجینئر" پیدا کر رہے ہیں جو پیچ کس صحیح سے نہیں پکڑ سکتا، اور "ایم بی اے" نکال رہے ہیں جسے مارکیٹ میں بیچنے کی تکنیک نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان نوکری کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں جبکہ بھارت اور ویتنام کے نوجوان ایمازون اور علی بابا پر بزنس کر رہے ہیں۔
7. صحت کا بحران — بیمار معاشرہ، کمزور معیشت
پاکستان میں ہر دوسرا شخص شوگر یا بلڈ پریشر کا مریض ہے۔ بیمار مزدور کیسے ہنر دکھائے گا؟ بیمار طالب علم کیسے محنت کرے گا؟ اور بیمار معاشرہ کیسے طاقتور معیشت بنے گا؟
امریکہ اور یورپ نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد سب سے زیادہ سرمایہ صحت اور تعلیم پر لگایا۔ ہم نے سب سے کم یہی شعبے مضبوط کیے۔ نتیجہ یہ کہ اسپتالوں کے باہر مریض مر جاتے ہیں، اور امیر مریض علاج کے لیے باہر بھاگتا ہے۔
8. محنت کی توہین اور مفت خوری کی عزت
یہ معاشرے کی سب سے بڑی بیماری ہے۔ کسان اور مستری پسینہ بہاتے ہیں مگر عزت سے محروم ہیں۔ دوسری طرف خوشامدی، شارٹ کٹ باز اور نعرے باز عزت اور دولت کے مالک ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج کوئی نوجوان مستری یا بڑھئی بننے پر تیار نہیں۔ وہ یوٹیوب پر شارٹ کٹ ویڈیوز ڈھونڈے گا لیکن پسینہ بہانے کو عیب سمجھے گا۔
9. طبقاتی تقسیم اور ناانصافی
پاکستان آج کئی حصوں میں بٹ چکا ہے۔
ایلیٹ کے بچے بیرونِ ملک یونیورسٹیز میں ہیں۔
مڈل کلاس کے بچے اردو میڈیم یا پرائیویٹ اسکول میں۔
اور غریب کے بچے چائے کے ڈھابے پر برتن دھوتے ہیں۔
یہ تقسیم خطرناک ہے۔ قومیں تب ٹوٹتی ہیں جب امیر اور غریب کی دنیا الگ الگ ہو جائے۔
10. قیادت کا بحران
پاکستان میں لیڈر نہیں، "مالک" ہیں۔ سیاسی جماعتیں خاندانوں کی جاگیر ہیں، بیوروکریسی طاقت کا تخت ہے، خدمت کا پلیٹ فارم نہیں۔
جب قیادت قوم کی خدمت کے بجائے اپنی جیب کی مالک بن جائے تو پھر قوم کو اندھی گلیوں میں ہی جانا پڑتا ہے۔
ابنِ خلدون کا قول آج ہمارے سامنے زندہ ہے۔ لیکن یہ محض تاریخ کا سبق نہیں، یہ آئینہ ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم اسی آئینے میں اپنی تباہی دیکھتے رہیں گے یا اپنی شکل بدلیں گے۔
یاد رکھیں: قومیں تعویذ اور افواہوں سے نہیں، پسینے اور سچائی سے بنتی ہیں۔ اگر ہم نے اپنا پسینہ نہ بہایا تو آنے والی نسلیں ہمیں صرف بددعائیں دیں گی۔
واپس کریں