عصمت اللہ نیازی
چونکہ ہمارہ معاشرہ قبائلی ٹائپ کا ہے جس میں خاص کر خواتین سمیت تعلیم پر خاص توجہ نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے انا پرستی ہمارے معاشرہ میں بہت زیادہ ہے۔ اسی انا پرستی کی وجہ سے ہمارے علاقہ میں قتل و غارت آئے روز کا معمول ہے لیکن اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ ماضی کی نسبت اب قتل و غارت بڑھ گئی ہے لیکن اگر تھوڑی سی ریسرچ کی جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقہ میں ماضی میں بھی یہ وبا عام تھی لیکن آبادی کم ہونے کی وجہ سے قتل کی نسبت بھی کم تھی لیکن جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی ہے قتل کا تناسب بھی ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اس جدید دور میں بھی جب دنیا سائنس میں کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے ہم مسائل کے اسباب سائنسی بنیاد پر معلوم کرنے کی بجائے سانپ کی لکیر کو پیٹنے پر لگے ہوئے ہیں۔ آج ہم یہاں اپنے علاقہ میں قتل کی سائنسی وجوہات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
سیگمنڈ فرائیڈ جو کہ نفسیات کے علم کا بانی ہے اُس کے مطابق انسان کی زندگی کی سب سے اہم عمر بچے کے پہلے پانچ سال ہیں جس میں اُس کی شخصیت بنتی ہے ۔ فرائیڈ کے مطابق انسانی ذہن کے تین حصے ہوتے ہیں پہلا شعور ، دوسرا تحت الشعور اور تیسرا لاشعور۔ انسانی جوانی کے بعد انسانی شخصیت میں لاشعور سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ انسان کی اسی ابتدائی عمر سے تعلق رکھنے والی خواہشات اور ہیجانات لاشعور میں جمع رہتی ہیں اور وہ کوشاں رہتی ہیں کہ کوئی راستہ پا کر اپنی تسکین کا سامان بہم پہنچائیں۔ اس ذہنی قوت کو اڈ (Ad) کا نام دیا گیا ہے اور یہی وہ سر چشمہ ہے جہاں سے ذہن جہتوں سے قوت حاصل کرتا ہے۔ سب سے اہم بات یاد رکھیں کہ بچے کی ابتدائی عمر کی خواہشات کا ایک حصہ خارجی دنیا سے کٹ کر لاشعور میں جمع ہو جاتا ہے۔ اب اس اڈ (Ad) اور خواہشات کے درمیان ایک فلٹر لگا ہوتا ہے جسے ذات (Ego) کا نام دیا گیا ہے۔ مزید آگے اس (Ego) کا کچھ حصہ بھی لاشعور میں چلا جاتا ہے اسے ضمیر (Super Ego) کہتے ہیں، بچے میں یہ ضمیر پہلے پانچ سال میں تعمیر ہوتا ہے اور تمام عمر لاشعور میں رہنے والی خواہشات پر فلٹر کا کام کرتا ہے ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کئی مرتبہ ہم اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ فلاں خواہش میرے دل میں ہے لیکن وہ کام کرنے کو میرا ضمیر نہیں مانتا۔ لہٰذا اپنے بچوں کی پرورش میں ان کی عمر کے پہلے پانچ سال کا خاص خیال رکھیں۔ یہ نہ سوچیں کہ بڑا ہو گا تو سیکھ جائے گا بلکہ خاص کر ان پانچ سالوں میں بچے کی نظر اپنے والدین پر ہوتی ہے ۔ آپ جو بات کرتے ہیں یا جو حرکت کرتے ہیں وہ کورے کاغذ کی طرح بچے کے ذہن پر پکی سیاہی سے لکھی جاتی ہے ۔ ان پانچ سالوں میں بچے کی ہر خواہش کا خیال رکھیں اور بچے کے ساتھ رویے پر اپنی بھرپور توجہ مرکوز رکھیں کیونکہ اس عمر میں جو خواہشات اور ہیجانات پورے نہیں ہوتے وہ ساری زندگی لاشعور میں رہ کر بچے کی شخصیت کو تنگ کرتے رہتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ترقی یافتہ اور پڑھی لکھی قومیں اپنا تن من دھن اپنے بچے کی پرورش کے پہلے ایام میں لگا دیتے ہیں۔ کم تعلیم یافتہ معاشروں میں بسنے والے لوگوں میں ایگو اس لئے زیادہ ہوتی ہے کہ پہلی عمر میں انکی پرورش کی طرف پوری توجہ نہیں دی جاتی جو بعد میں انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ ہم روزانہ اپنے علاقہ میں قتل و غارت کا رونا روتے رہتے ہیں اور اس کے اسباب ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں لیکن اصل حقائق کی طرف نہ توجہ دیتے ہیں اور نہ ریسرچ کرتے ہیں۔ میں وثوق سے کہتا ہوں کہ ضلع میانوالی میں قتل و غارت کا سب سے بڑا سبب انا (Ego) ہے جو والدین کو پرورش کا شعور نہ ہونے کی وجہ سے بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم والدین کی اکثریت چونکہ تعلیم یافتہ نہیں اور جو کچھ تھوڑے بہت پڑھے لکھے ہیں انہیں بھی بچے کی صحیح پرورش کا علم نہیں لہٰذا ہماری آنے والی نئی نسل اس نفسیاتی مسئلہ کا شکار ہے۔ خدارا اگر اپنے ضلع میانوالی میں قتل و غارت کم کرنی ہے تو انا (Ego) کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرنے والے بچے کے پہلے پانچ سال کی طرف خاص توجہ دیں اور بچوں کی پرورش سائنسی بنیادوں پر کریں اور اپنے تعلیمی اداروں سمیت مختلف فورمز پر بچے کی پرورش کے سائنسی اور نفسیاتی طریقے کار پر بحث کروائیں۔ اس تمام پراسیس میں معاشرہ کا ہر طبقہ حصہ لے جس میں والدین، سول سوسائٹی ، اساتذہ کرام ، پولیس ، مساجد کے امام سمیت ہر طبقہ اس پر توجہ دے۔
واپس کریں