
ہارڈ پاور (سخت طاقت) ایک بار پھر عالمی سیاست کے مرکز میں پوری شدت سے واپس آ چکی ہے۔ حالانکہ اس کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کبھی ہوگی۔ بین الاقوامی معاملات میں عسکری طاقت ایک کلیدی ذریعہِ قوت بنی رہے گی۔ البتہ امید یہ کی جاتی رہی ہے کہ جنگوں کو ریاستوں کے درمیان اختلافات ختم کرنے کے طریقے کے طور پر ترک کر دیا جائے گا اور طاقت کا استعمال محض آخری آپشن کے طور پر کیا جائے گا۔
یہ تصور غالب تھا کہ ریاستیں عسکری یا معاشی جبر کے بجائے بات چیت اور سفارت کاری کو ترجیح دیں گی۔ اور سافٹ پاور (نرم طاقت) یعنی قائل کرنے کی طاقت کو خارجہ پالیسی کے اہداف کے حصول اور عالمی اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے زیادہ استعمال کیا جائے گا۔
لیکن آج صورتحال ایسی نہیں ہے۔ طاقتور ممالک اور علاقائی قوتیں دوسرے ممالک کو زیر کرنے کے لیے سخت طاقت استعمال کر رہی ہیں۔ ان کے لیے طاقت کا استعمال اب آخری نہیں بلکہ اولین آپشن بن چکا ہے اور یہی ذریعہ بن گیا ہے اختلافات کو ’حل‘ کرنے اور اپنی مرضی تھوپنے کا۔ اسرائیل کی غزہ پر جنگ، ایران، شام، لبنان اور یمن پر اس کے حملے، روس کا یوکرین پر حملہ، امریکا کی جانب سے ایران پر بمباری اور بھارت کی پاکستان کے خلاف فوجی کارروائیاں سب طاقت کے بڑھتے ہوئے استعمال کا ثبوت ہیں۔
یہ تمام اقدامات بین الاقوامی قانون اور طاقت کے استعمال پر موجود قانونی پابندیوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ یہ اقدامات مکمل استثنیٰ کے ساتھ کیے جا رہے ہیں، جس سے ویسے ہی بکھرے ہوئے عالمی نظام کو مزید ٹکڑے ٹکڑے کیا جا رہا ہے اور عالمی تعاون کے نظام کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ عالمی اصول، جو سخت طاقت کے جابرانہ استعمال کو کم اہمیت دیتے ہیں، انہیں جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے تاکہ مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ اس ’جدید توپ بردار سفارت کاری‘ (gunboat diplomacy) کا مقصد سیاسی اور معاشی اہداف کے حصول کے لیے طاقت یا اس کی دھمکی کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔ اس روش نے دنیا کو قانون سے محروم ہابزی(Hobbesian) دنیا کی طرف دھکیل دیا ہے۔بین الاقوامی امور میں ہارڈ پاور کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ممالک، خاص طور پر بڑی طاقتیں، اپنے ہارڈ پاور کے وسائل میں مسلسل اضافہ کر رہی ہیں۔ عالمی دفاعی اخراجات میں تیزی سے اضافہ اس کا ثبوت ہے۔ یہ اخراجات نئی بلندیوں تک پہنچ چکے ہیں کیونکہ دنیا کے چھوٹے بڑے ممالک اپنے ہارڈ پاور کے اثاثے بڑھانا ناگزیر سمجھتے ہیں تاکہ وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکیں اور غیر مستحکم عالمی ماحول میں اپنی سلامتی یقینی بنا سکیں۔
معاشی جبر کے ذریعے ہارڈ پاور کے مظاہرے کی ایک اور مثال ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تقریباً تمام ممالک پر بلند ٹیرف عائد کر کے تجارتی جنگ چھیڑ دی تاکہ مذاکرات میں دباؤ ڈال کر رعایتیں حاصل کی جا سکیں۔
معاشی جبر کے ذریعے ممالک کو زیر کرنے کی یہ روش دشمنوں اور اتحادیوں میں کوئی فرق نہیں کرتی۔ تمام ممالک کو تجارتی معاہدے دوبارہ طے کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، جبکہ ٹیرف کو معاشی فائدے کے لیے ایک سزا دینے والے آلہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس پالیسی سے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ اگر امریکی مطالبات نہ مانے گئے تو اس کی بھاری قیمت چکانا ہوگی۔ اس قسم کی انتہا درجے کی یک طرفہ پالیسیوں کا نتیجہ صرف عالمی تجارتی نظام کی تباہی نہیں بلکہ ممالک کے مابین رابطے کے قائم شدہ اصولوں کو بھی تہہ و بالا کر دیتا ہے، جہاں نامعلوم عوامل معلوم پہلوؤں پر حاوی ہو چکے ہیں۔
کیا اس سب کا مطلب یہ ہے کہ سافٹ پاور اپنی اہمیت کھو چکی ہے؟ کیا ہارڈ پاور کے بڑھتے ہوئے استعمال سے سفارت کاری کی قدر کم ہو گئی ہے؟ کیا دوسروں کو قائل کرنے کے بجائے دباؤ ڈالنے کا رجحان غالب آ چکا ہے؟ کیا ’نرم طاقت‘ کا تصور اب پرانا ہو چکا ہے جیسا کہ بعض تجزیہ کار دعویٰ کرتے ہیں؟ اس کا مختصر جواب ہے: نہیں۔ کیونکہ یہ آج بھی بین الاقوامی سیاست کا ایک اہم جزو ہے۔ وہ بنیادی ہتھیار جس سے ممالک اپنا اثر و رسوخ قائم کرتے ہیں اور عالمی تاثر کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالتے ہیں۔ لہٰذا، اگرچہ آج ہارڈ پاور غالب دکھائی دیتی ہے، یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہوگا کہ سافٹ پاور، یعنی دوسروں کی ترجیحات کو اپنی طرف مائل کرنے اور ’کشش‘ کے ذریعے نتائج حاصل کرنے کی صلاحیت، اب عالمی منظرنامے پر بے معنی ہو چکی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جہاں امریکا اور دیگر ریاستیں ہارڈ پاور استعمال کر رہی ہیں، وہیں چین نے ایک بڑھتی ہوئی سافٹ پاور کی حکمتِ عملی اختیار کی ہے، جو اس کی معاشی اور عسکری طاقت میں اضافے کی تکمیل کرتی ہے۔ اس حکمت عملی نے چین کو اپنا عالمی اثر و رسوخ بڑھانے، اعتماد قائم کرنے اور دوسرے ممالک سے زیادہ تعاون حاصل کرنے میں مدد دی ہے۔ حیرت کی بات نہیں کہ لندن کی مشہور کنسلٹنسی فرم، برانڈ فنانس، کے تازہ ترین ’گلوبل سافٹ پاور انڈیکس‘ میں چین 193 ممالک میں سے دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ یہ اس کی کثیر جہتی اقتصادی، سفارتی اور ثقافتی حکمت عملی کا نتیجہ ہے، جو اس کی عالمی شبیہ کو بہتر بنانے کے لیے اختیار کی گئی ہے۔
چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (جس میں 150 ممالک شامل ہیں)، مصنوعی ذہانت میں اس کی تکنیکی پیش رفت، ترقیاتی امداد، سبز ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری، اور ثقافتی سفارت کاری، یہ سب اس کی سافٹ پاور کے بھرپور اور متنوع پہلو ہیں۔ اسی طرح مختلف اداروں میں اس کا فعال کردار اور ’گلوبل ساؤتھ‘ کی ترجمانی بھی اس کی سافٹ پاور کا حصہ ہیں۔ مثال کے طور پر سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی میں اس کی ثالثی نے اس کی سافٹ پاور میں مزید اضافہ کیا ہے۔ ان تمام عوامل نے چین کو عالمی سطح پر اثر و رسوخ بڑھانے اور بین الاقوامی تاثر اپنے حق میں کرنے میں مدد دی ہے۔
سافٹ پاور کا تصور پیش کرنے والے جوزف نائے نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں یہ سوال اٹھایا کہ آیا آج کے دور میں بھی سافٹ پاور اہم ہے؟ ”فارن افیئرز“ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں جو انہوں نے معروف اسکالر رابرٹ کیوہین کے ساتھ مل کر اپنی وفات سے کچھ پہلے لکھا، وہ واضح کرتے ہیں کہ صدر ٹرمپ، جو ’زبردستی پر غیر معمولی انحصار کرتے تھے‘، سافٹ پاور اور اس کے کردار کو سمجھنے سے قاصر تھے اور صرف ہارڈ پاور پر تکیہ کرتے رہے۔ ان کے مطابق یہ حکمت عملی طویل مدت میں ناکام ہو جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی ملک پرکشش ہو تو اسے دوسروں کا رویہ بدلنے کے لیے مراعات اور سزاؤں پر انحصار کرنے کی کم ضرورت پیش آتی ہے۔
مزید یہ کہ، ’اگر اتحادی کسی ملک کو خوش اخلاق اور قابلِ اعتماد سمجھتے ہیں، تو وہ زیادہ آسانی سے اس کی قیادت قبول کرتے ہیں‘۔ لیکن اگر وہ اپنے تجارتی ساتھی کو غاصب یا غنڈہ سمجھیں تو وہ اس سے دور ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور طویل مدت میں اس پر انحصار کم کرنا چاہتے ہیں۔ مصنفین یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں باہمی انحصار بڑھتا جا رہا ہے، تعاون کا حصول ناگزیر ہے اور یہ وہ شعبہ ہے جہاں سافٹ پاور کی حکمت عملی بہت مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
لہٰذا، اگرچہ آج کے دور میں سخت طاقت کا مظاہرہ بظاہر غالب ہے، نرم طاقت بھی بین الاقوامی سیاست میں اپنی جگہ اور اہمیت رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ممالک اپنے مفادات صرف عسکری اور معاشی قوت کے ذریعے نہیں بلکہ قائل کرنے اور کشش کے ذریعے بھی حاصل کر سکتے ہیں، جو دیگر ریاستوں کو تعاون اور ہم آہنگی پر آمادہ کرتا ہے۔ نرم اثاثے سخت وسائل کا نعم البدل تو نہیں ہو سکتے، مگر یہ ریاستوں کو عزت اور اعتماد دلا سکتے ہیں جو کہ قومی اہداف کے کامیاب حصول کے لیے بے حد ضروری ہیں۔
واپس کریں