دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہماری مضبوط ہوتی ہوئی معیشت کی ایک جھلک
No image پٹرول، بجلی اور گیس کے بلوں سے لے کر کھانے پینے کی بنیادی اشیاء تک اوسط پاکستانی کے لیے سب کچھ ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔ تنخواہیں اور آمدن وہی لیکن ماہانہ اخراجات تقریباً دوگنے سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ محنت کش طبقے، طلباء اور یومیہ اجرت کمانے والے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ لاکھوں خاندان صرف زندہ رہنے کے لیے ایک وقت کا کھانا چھوڑنے یا قرضوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔
یہاں فیکٹریاں لگانے یا قوم کو مستقل روزگار فراہم کرنے کا کوئی بھی منصوبہ اس وقت عوامی حکومت کے زیرغور نہیں ہے۔بس غیر ملکی سودی قرضے لینے اورانھیں ری شیڈول کروانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور جو سودی قرض لیے جارہے انھیں خود اور اپنے سیاسی اتحادیوں کو نوازنے پراستعمال کیاجارہا ہے۔ بے شرمی اور ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ پارلیمنٹرین جواشرافیہ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں انہیں خوش رکھنے کے لئے بجلی، گیس اورتمام مراعات کے بعد اُن کی تنخواہیں بیس بیس لاکھ کردی گئی ہیں ۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مئی 2025 تک کے وفاقی حکومت کے قرضوں کا ڈیٹا جاری کردیا ہے۔ وفاقی حکومت کے قرضے ملکی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں،اسٹیٹ بینک کی دستاویز کے مطابق گذشتہ مالی سال کے پہلے 11 ماہ جولائی2024 سے مئی 2025 کے دوران وفاقی حکومت کے قرضوں میں7 ہزار 131 ارب روپے جب کہ اپریل 2025 کے مقابلے میں مئی 2025 کے ایک مہینے میں مرکزی حکومت کے قرضوں میں 1109 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔دستاویز کے مطابق جون 2024 سے لے کر مئی 2025 کے ایک سال میں وفاقی حکومت کے قرضوں میں 8 ہزار 312 ارب روپےکا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔مئی 2025 تک وفاقی حکومت کے قرضوں کا حجم 76 ہزار 45 ارب روپے رہا جس میں مقامی قرضہ 53 ہزار 460 ارب روپے اور بیرونی قرضےکا حصہ 22 ہزار 585 ارب روپے تھا۔یہ ہے جناب ہماری مضبوط ہوتی ہوئی معیشت کی ایک جھلک۔
ہوشیاری اورشاطر بازی کا نام ہی ہے "بجٹ سازی"۔جسے اس طرح بنایا جاتا ہے کہ کسی کی سمجھ میں بھی نہ آئے اور اپنا کام بھی ہوجائے۔مہنگائی کی کمی کے دعوے صرف زبانی جمع خر چ کے سوا کچھ نہیں۔ڈالر پھر مہنگاہورہا ہے اور279 سے بڑھ کر 284 تک پہنچ گیا ہے۔ابھی بھی اگر کسی حکومتی وزیر یا مشیر کی پریس کانفرنس سنیں تو لگے گا آپ پیرس میں رہ رہے ہیں جہاں سب اچھا کی رپورٹ ہے۔امر واقع یہ ہے کہ عالمی ساہو کار آئی ایم ایف کی چھتر چھایہ کے نیچے رہ کر ہم نہ سکھ کا سانس لے سکتے ہیں اور نہ ہی آذادانہ پالیسیاں بنا سکتے ہیں۔اس لیئے ہمیں اپنے آپ کو کسی آذاد ملک کا آذاد شہری کہلانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک بار جب اقتدار مضبوط ہوجاتا ہے تو اس کی کمزوری کی جانب سفر بھی آہستہ آہستہ شروع ہوجاتا ہے۔
واپس کریں