گورنر خیبر پختونخوا پر ریڈ کریسنٹ سوسائٹی میں کرپشن اور سیاسی مداخلت کے الزامات
خالد خان۔ کالم نگار
پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی (پی آر سی ایس)، جو ایک غیرجانبدار انسانی فلاحی ادارہ ہونے کے ناطے ہمیشہ وقار، خدمت اور دیانت کی علامت رہی ہے، خیبر پختونخوا میں بدترین بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ صوبائی گورنر فیصل کریم کنڈی، ان کے بھائی رکن اسمبلی انجینئر احمد کنڈی، اور ان کے قریبی ساتھی فرزند وزیر پر سنگین الزامات عائد ہوئے ہیں کہ انہوں نے اس ادارے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے مالی و انتظامی بدعنوانی کو منظم انداز میں فروغ دیا۔ یہ الزامات نہ صرف انسانی خدمت کے ایک قومی ادارے کی ساکھ کو داؤ پر لگاتے ہیں، بلکہ صوبائی حکمرانی کے اخلاقی معیار پر بھی گہرے سوالات اٹھاتے ہیں۔
اس بحران کی جڑ پی آر سی ایس خیبر پختونخوا کی گورننگ باڈی میں سیاسی مداخلت سے جڑی ہوئی ہے۔ موجودہ ارکان کو بغیر کسی شفاف قانونی عمل کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے وابستہ افراد کو تعینات کیا گیا۔ ان میں گورنر کے بھائی انجینئر احمد کنڈی، رکن اسمبلی ارباب زرک خان، فرزند وزیر، لاجبر ایڈووکیٹ، اسامہ یاور، ڈاکٹر حیدر علی خان، ڈاکٹر حنا کرامت، اور احسان اللہ میاں خیل شامل ہیں۔ ان تقرریوں نے ادارے کی غیرجانبداری کو داغدار کرتے ہوئے اسے سیاسی اثر و رسوخ کے تابع بنا دیا ہے۔
اس کے بعد سب سے سنگین پہلو سامنے آتا ہے: کُرم ضلع کے عارضی بے گھر افراد (ٹی ڈی پیز) کے لیے مختص امدادی رقوم کی مبینہ خوردبرد۔ سندھ حکومت کی جانب سے 2 کروڑ روپے اور بلوچستان حکومت کی جانب سے 1 کروڑ روپے کی امداد، جو متاثرین کے لیے مخصوص تھی، کا حساب کتاب غائب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روسی فیڈریشن کی جانب سے بھجوایا گیا غذائی و غیر غذائی سامان بھی یا تو غائب ہو گیا یا کسی اور مصرف میں لایا گیا، جس سے متاثرہ خاندان محرومی کا شکار رہے۔
ادارے میں بھرتیوں کا عمل بھی بدترین بدعنوانی کا مظہر بن چکا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، بنوں اور کوہاٹ کے ڈسٹرکٹ سیکریٹریز، نیز ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلعی پروگرام آفیسر کی تعیناتیاں بغیر اشتہار، میرٹ یا کسی تحریری و زبانی امتحان کے کی گئیں۔ ان تقرریوں کی فہرست مبینہ طور پر انجینئر احمد کنڈی نے تیار کی اور فرزند وزیر کے ذریعے نافذ کی گئی۔ بنوں میں بہرام شہزادہ، جو جے یو آئی (ف) کے رہنما اکرم درانی کے قریبی رشتہ دار ہیں، کو تعینات کرنا اسی سیاسی مداخلت کی ایک مثال ہے۔
ریڈ کریسنٹ کے مالی وسائل کا غلط استعمال اس وقت اور واضح ہو گیا جب یہ انکشاف ہوا کہ گورنر ہاؤس میں ہونے والے افطار ڈنرز کے لیے ادارے سے دو ملین روپے کی ادائیگیاں کی گئیں۔ ادارے کی ایک قیمتی لینڈ کروزر گاڑی گورنر ہاؤس کے زیر استعمال ہے۔ مزید یہ کہ سوات کے کانجو ٹاؤن شپ میں واقع پی آر سی ایس کی ایک عمارت، جس کی مالیت دو سو بیس ملین روپے کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے، گورنر کے قریبی شخص کو عطیہ کر دی گئی، جو شدید بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے۔
سیاسی تشہیر کے لیے ادارے کی خدمات کا استعمال بھی خبروں کا حصہ بن چکا ہے۔ گورنر نے ایک ایمبولینس سروس کا افتتاح کیا، جس پر ڈیڑھ ملین روپے خرچ کیے گئے، لیکن یہ سروس تاحال فعال نہیں ہو سکی۔ اسی طرز کی ایک اور تقریب ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی متوقع ہے، جسے محض سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
سب سے قابلِ مذمت امر یہ ہے کہ انسانی خدمت سے وابستہ پی آر سی ایس کے رضاکاروں اور عملے کو سیاسی جلسوں میں شرکت پر مجبور کیا گیا۔ ادارے کی گاڑیاں بھی ان تقریبات کے لیے وقف رہیں، جو بین الاقوامی انسانی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں سیلاب متاثرین کے لیے کیش امداد کا پروگرام بھی اسی طرز پر متاثر ہوا۔ گورنر کے فرنٹ مین کی جانب سے فراہم کردہ 375 خاندانوں کی فہرست پر 65 ہزار روپے فی خاندان تقسیم کیے گئے، حالانکہ ان میں سے متعدد سیلاب سے متاثر ہی نہیں تھے۔
ادارے کی تنخواہوں کا غلط استعمال ایک اور پہلو ہے، جہاں گورنر کے میڈیا سیل کی انچارج محترمہ ایمان پی آر سی ایس سے تنخواہ وصول کر رہی ہیں، باوجود اس کے کہ وہ ادارے سے نہ منسلک ہیں اور نہ کسی قسم کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔
یہ تمام تفصیلات باوثوق ذرائع اور انسانی ہمدردی کے عالمی نیٹ ورکس کے ماہرین کی جانب سے تصدیق شدہ بتائی جاتی ہیں۔ ناروے ریڈ کراس کے کنٹری پروگرام مینیجر ڈاکٹر محمد افتخار علی یار، جو سری لنکن نژاد ماہر ہیں، ان شواہد سے مکمل طور پر باخبر ہیں اور تصدیق کے لیے ان سے رابطہ ممکن ہے۔
1947 میں قائم ہونے والی پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی، جو 1920 کے انڈین ریڈ کراس ایکٹ کے تحت قائم ہوئی اور بعدازاں 1974 میں قومی اسمبلی کے ایک ترمیمی ایکٹ کے ذریعے موجودہ نام سے جانی گئی، ہمیشہ غیرجانبدار، شفاف اور دیانتدار خدمات کی علمبردار رہی ہے۔ آج یہی ادارہ سیاسی مداخلت، اقربا پروری اور مالی بدعنوانی کے شکنجے میں دکھائی دیتا ہے۔
اس صورت حال کے پیشِ نظر فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ کُرم ٹی ڈی پیز فنڈز اور روسی امداد کی آڈٹ کے لیے ایک خصوصی فرانزک ٹیم تشکیل دی جائے۔ موجودہ سیاسی بنیادوں پر تعینات بورڈ ارکان کو ہٹایا جائے۔ تمام بھرتیوں کی مکمل ایچ آر آڈٹ ہو، اور اس کے نتائج شفاف انداز میں خیبر پختونخوا حکومت، نیب اور عالمی انسانی اداروں کے ساتھ شیئر کیے جائیں۔ پاکستان ریڈ کریسنٹ کو مزید سیاسی آلودگی سے بچانے کے لیے مرکزی ہیڈکوارٹرز اور انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (ICRC) کو فوری مداخلت کرنی چاہیے۔
ریڈ کریسنٹ جیسا قومی انسانی خدمت کا ادارہ اگر سیاسی فائدے کا ہتھیار بن گیا تو یہ پورے ملک کے لیے ایک اخلاقی سانحہ ہوگا۔ اسے بچانا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے—ابھی اور اسی وقت۔
واپس کریں