"آپریشن سندور" : جب عورت کے دکھ کو جنگ کا ہتھیار بنا دیا گیا۔احسن بودلہ

6 مئی 2025 کو بھارت کی جانب سے پاکستان پر کیے گئے میزائل حملوں کو "آپریشن سندور" کا نام دیا گیا۔ بظاہر یہ نام ان عورتوں کے دکھ کی نمائندگی کرتا ہے جنہوں نے پاہلگام دہشت گرد حملے میں اپنے شوہروں کو کھو دیا۔ بھارت کے وزیر دفاع نے بھی اس آپریشن کے اس نام کی یہی توجیح پیش کی ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی عورت کے ذاتی دکھ کو عسکری کارروائی کے لیے علامتی جواز بنانا درست ہے؟ کیا عورت کی شناخت صرف اس کے شوہر سے جڑی ہے؟ کیا عورت کا درد جنگ کا ایندھن بننا چاہیے؟ جب اس آپریشن میں بچے اور عورتیں بھی نشانہ بنی ہوں ۔
"سندور" برصغیر کی ثقافت میں شادی شدہ عورت کی پہچان تصور کیا جاتا ہے۔ اسے ماتھے پر سجایا جاتا ہے اور یہ اس کے سہاگ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب یہی علامت ایک ریاستی جنگی آپریشن کے نام سے نتھی کی جائے، تو اس کے معنی خوفناک حد تک بدل جاتے ہیں۔ پھر "سندور" محبت یا وابستگی کی علامت نہیں رہتی، بلکہ انتقام، عسکریت، اور خونریزی کا استعارہ بن جاتی ہے۔
عورت کا دکھ نجی ہوتا ہے، جذباتی، گہرا، اور پیچیدہ۔ اسے ایک ریاستی بیانیے میں یوں برت کر استعمال کرنا کہ جیسے وہ خود جنگ کی پکار دے رہی ہو، عورت کے جذبات کا استحصال ہے۔ کیا ان بیوہ عورتوں سے پوچھا گیا کہ وہ کیا چاہتی ہیں؟ انصاف، بدلہ یا امن؟ ان کی آواز کو شامل کیے بغیر ان کے دکھ کو ایک پوری جنگی مہم کا جواز بنانا، عورت کو خود مختار انسان کے بجائے ایک جذباتی علامت میں قید کر دینا ہے۔
پریشان کن بات یہ ہے کہ اس طرح کے بیانیے عورت کو صرف "شوہر کی بیوی" بنا کر پیش کرتے ہیں، ایک ایسی ہستی جو صرف کسی مرد کے ہونے یا نہ ہونے سے تعریف ہوتی ہے۔ عورت کی ذات، اس کی شناخت، اس کی سوچ، اس کی سیاسی رائے سب غائب۔ صرف "بیوگی" کو نمایاں کیا جاتا ہے، وہ بھی اس لیے تاکہ جنگ کو جذباتی سہارے کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔
"آپریشن سندور" نہ صرف عورت کی علامت کو غلط استعمال کرتا ہے بلکہ ایک خطرناک رجحان کو فروغ دیتا ہے: ریاستی جنگی پالیسیوں میں جذباتی استعاروں کا استعمال، خاص طور پر ایسے استعارے جو عورت کے دکھ سے جڑے ہوں۔
عورت کا درد مقدس ہے۔ اسے جنگی حکمت عملی میں استعمال کرنا، اس کی تذلیل ہے، اس کی آواز کی بے توقیری ہے۔ ہمیں اس بیانیے کو چیلنج کرنا ہو گا جو عورت کے غم کو بندوق کی نالی میں جھونکتا ہے۔
واپس کریں