دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بھارت میں مارشل لا نافذ ہونےکے امکانات
No image موجودہ سیاسی منظرنامہ:جون 2024 کے عام انتخابات میں حکمران NDA اتحادی نے دوبارہ اکثریت حاصل کی، جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو 240 نشستیں ملیں۔ نریندر مودی تیسری بار وزیر اعظم بنے، اگرچہ بی جے پی کو خود اکیلے اکثریت حاصل نہ ہو سکی۔ اس کا مطلب ہے کہ موجودہ حکومت کو پارلیمانی طور پر مضبوط پکڑ حاصل ہے اور اس نے انتخابی جمہوری عمل سے منظوری لی ہے۔ تاہم مبصرین نوٹ کرتے ہیں کہ حکومت نے حزب اختلاف اور میڈیا پر سخت کنٹرول نافذ کیا ہے، جس سے جمہوری اداروں پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی طور پر سیاسی طور پر بی جے پی/این ڈی اے مستحکم دکھائی دیتی ہے، اور کوئی اندرونی بحران فوری طور پر حکومت کی بقا کو خطرے میں نہیں ڈال رہا۔
عوامی رجحانات و اضطراب
سرکاری اعداد و شمار براہ راست عوامی خوف کی عکاسی نہیں کرتے، بلکہ عام رائے میں ایک منفرد رجحان نظر آتا ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کے 2023 کے سروے میں حیرت انگیز طور پر 85 فیصد بھارتیوں نے کہا کہ فوجی اقتدار یا طاقتور حکمران ملک کے لیے اچھا ہو گا۔ اسی سال دو تہائی (%67) نے آمریت کی حمایت کی۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بہت سے شہری جمہوری عمل سے مایوس ہیں اور “مضبوط ہاتھ” کی سیاست کے خواہاں ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں جمہوریت میں پیدا ہونے والی کشیدگیوں کا راستہ فوجی بغاوت سے نہیں بلکہ قانونی و سیاسی اقدامات سے ہے۔ لہٰذا عوام میں براہِ راست مارشل لا کا خوف کم ہے۔ اگر خوف ہے تو وہ زیادہ تر سیکورٹی صورت حال یا اقتصادی مشکلات سے متعلق ہے، نہ کہ فوجی انتقلاب کے۔
آئینی ڈھانچہ و ہنگامی اختیارات
بھارتی آئین میں مارشل لا کا تعین براہ راست کہیں نہیں۔ صرف آرٹیکل 34 میں پارلیمنٹ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ مارشل لا کے دوران فوجی افسران کے اقدامات کو قانونی تحفظ دے سکتا ہے۔ یعنی آئین صرف انسدادِ بغاوت یا جنگ کے دوران فوجی حکمتِ عملی کے نتیجے میں ہونے والے سلوک کو بعد میں جائز ٹھہرانے کا طریقہ فراہم کرتا ہے، لیکن مارشل لا نافذ کرنے کا کوئی طریقہ کار طے نہیں کرتا۔ اس کے برعکس، آئین میں ہنگامی حالت کے انتظام کے لیے آرٹیکل 352 (قومی ہنگامی حالت)، آرٹیکل 356 (صوبائی ایمرجنسی) اور آرٹیکل 360 (مالی ہنگامی حالت) کی دفعات موجود ہیں۔ ان حالتوں میں مرکزی حکومت کو بے پناہ اختیارات ملتے ہیں، لیکن یہ بھی مارشل لا جتنے سخت نہیں ہوتے۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ ہنگامی حالت میں بھی کچھ حقوق مثلاً کاراستی کی درخواست (ہیبِیئس کورپس) معطل نہیں کی جا سکتیں۔ یوں عملی طور پر مارشل لا جیسا کسی اقدام پر بھی عدالت میں نظرثانی کا عمل لاگو رہے گا۔ مجموعی طور پر آئینی ڈھانچے میں مارشل لا کے نفاذ کی گنجائش بہت محدود اور غیر واضح ہے
عدلیہ کا کردار
بھارتی عدلیہ خاص طور پر 1975 کے ہنگامی عہد کے بعد اپنے قوانین کی تشریح میں محتاط اور محافظانہ ہوگئی ہے۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے حال ہی میں کہا کہ سپریم کورٹ نے 1975 کے تجربے کے بعد بنیادی حقوق کی ترجمانی میں اہم تبدیلی کی ہے۔ مثال کے طور پر منیکا گاندھی کیس (1978) میں عدالتِ عظمیٰ نے آرٹیکل 14، 19 اور 21 (برابری و آزادی کے حقوق) کو ایک ساتھ پڑھنے کا اصول قائم کیا، یعنی ان کو علیحدہ علیحدہ نہ سمجھا جائے۔ علاوہ ازیں عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ ایمرجنسی کی حالت میں بھی کاراستی کا حق معطل نہیں ہوتا۔ موجودہ چیف جسٹس نے بھی جمہوریت کے تحفظ اور بنیادی حقوق کی پامالی روکنے پر زور دیا ہے۔ اس پس منظر میں، اگر حکومت مارشل لا نافذ کرنے کی کوشش کرتی تو عدالتِ عظمیٰ غیر قانونی اقدامات کو چیلنج کرنے کا اہل ہوگی۔ بھارت میں بنیادی جمہوری حقوق اور لازمی طریقہ کار کا تحفظ عدلیہ کا مستحکم رُخ ہے۔
فوج کا رویہ
بھارتی فوج قدامت پسند اور غیرسیاسی رہنے کی روایت کی حامل ہے۔ آئین کے مطابق فوج اپنا فرمان صدرِ مملکت (جو فوج کا کمانڈر انچیف ہوتا ہے) کے حکم پر چلتی ہے۔ جیسا کہ تجزیہ کار لکھتے ہیں، فوجی طاقت آئین کے تحت صدر (جو آئینی اقدار کا محافظ ہے) سے منسلک ہے، اور جب تک اس نے صدر کا حکم حاصل کر رکھا ہو فوج اسے نہیں چیلنج کر سکتی۔ خود آرمی چیف جنرل وجےندر دِویدی نے واضح طور پر کہا ہے کہ “فوج کو سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہیے”۔ پاکستان کے برعکس، بھارت میں فوج نے کبھی بھی حکومت کو گرانے یا اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ درحقیقت ماہرین کہتے ہیں کہ ایک مضبوط سیاسی جماعت (کانگریس) نے سیاست پر قبضہ کیا ہوا تھا، جس کی وجہ سے فوج کو اقتدار میں مداخلت کا موقع نہیں ملا۔ ریاستی افواج کو خاص علاقوں (جیسے کشمیر اور شمال مشرق) میں AFSPA کے تحت زیادہ اختیارات ہیں اور بعض قانونی ماہرین اسے “عملی طور پر مارشل لا” قرار دیتے ہیں، لیکن یہ ملک گیر مارشل لا کا مترادف نہیں۔ فی الحال فوج کی قیادت جمہوری نظم و نسق کی پاس دار ہے اور کسی آئین شکن کارروائی میں شامل نہیں ہوگی
حالیہ واقعات کا جائزہ
گزشتہ برسوں میں بھارت میں چند سنگین واقعات پیش آئے ہیں جن پر تشویش ظاہر کی جاتی رہی۔ اگست 2019 میں حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی اور وہاں سخت کرفیو نافذ کیا۔ غیر ملکی مبصرین نے اس کارروائی کو کشمیر میں “مارشل لا جیسا” بھی قرار دیا، حالانکہ دہلی حکومت نے اسے داخلی امن و امان کی حکمتِ عملی بتایا۔ ملحقہ ریاستوں میں ہزاروں فوجی تعینات کیے گئے اور تمام مواصلاتی ذرائع بند کر دیے گئے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا کہ جب کرفیو اٹھایا جائے گا تو خونریز فسادات ہوں گے۔ اسی طرح مئی 2023 سے منپُر میں فرقہ وارانہ جھڑپیں جاری ہیں جس میں 250 سے زائد افراد ہلاک اور 60,000 سے زیادہ بے گھر ہوئے۔ مرکزی حکومت نے وہاں بھی فوج اور نیم فوجی دستوں کا استعمال کیا، لیکن پورے ملک میں ہنگامی حالت نافذ نہیں ہوئی۔ 1975-77 کا تجربہ (جب اندرا گاندھی نے پورے ملک میں ایمرجنسی لگائی) بھارتی تاریخ کا واحد شہکار تھا جسے بعض لوگوں نے نیم مارشل لا کہا، لیکن وہ دور بھی جمہوری اداروں کو مکمل معطل نہ کر سکا۔ عمومی طور پر، ان حالات میں بھی بھارت نے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ردعمل دیا ہے۔
بھارت میں مارشل لا کی گنجائش اور خطرہ
بھارت میں مارشل لا کا خطرہ فی الحال بہت کم ہے اور کوئی نمایاں خانہ جنگی یا بغاوت کا خطرہ نہیں ہے جو فوجی مداخلت کا جواز بنے۔ سپریم کورٹ نے بارہا اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ بنیادی شہری حقوق کا تحفظ برقرار رہے اور فوج خود سیاست سے دور رہنے کی روایت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ماہر تجزیہ کار میا ٹوڈور کے مطابق، بھارت کا “جمہوری زوال” فوجی انقلا ب کے بجائے قانونی اور سیاسی ذرائع سے ہوا ہے۔ تجزیاتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو موجودہ حالات میں حکومت کو مارشل لا جیسا قدم اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس لیے بھارتی جمہوریت کے تناظر میں مارشل لا کا امکان کم اور حقیقی خطرہ نہ کے برابر ہی سمجھا جاتا ہے۔
واپس کریں