بھارتی آبی جارحیت اور پاکستان کا جواب ۔خلیل احمد نینی تا ل والا

قارئین یہ حقیقت ہے کہ بھارت پاکستان پر دہشتگردی کا ملبہ ڈالنے کیلئے ہمہ وقت موقع کی تاک میں رہتا ہے۔ ممبئی حملے، امرتسر پولیس اسٹیشن حملہ، پلوامہ دہشتگردی اور پہلگام جیسے فالس فلیگ آپریشن کر کے یہ مواقع نکال ہی لیتا ہے۔ پہلگام حملے نے ایک بار پھر برصغیر کی 2جوہری طاقتوں کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ حملےکے فوراً بعد بھارت کی طرف سے روایتی الزام تراشی، بغیر کسی تحقیق کے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا اور انتہائی سنگین نوعیت کے اقدامات اٹھانا نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ خطے کے امن و استحکام کیلئے بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کا اعلان اور بارڈ رز بند کرنے جیسے اقدامات عالمی قوانین اور دوطرفہ معاہدوں کی صریحاََ خلاف ورزی ہیں۔ بھارت کی طرف سے معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی نہ صرف اخلاقی دیوالیہ پن ہے بلکہ یہ عالمی برادری کے سامنے ایک سنگین سوالیہ نشان بھی ہے۔ پاکستان کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا ہے، وہ ماضی کی نسبت کہیں زیادہ مربوط، مؤثر اور واضح ہے۔ تجارتی تعلقات معطل کرنا، فضائی حدود بند کرنا،واہگہ بارڈربند کرنا ،بھارتی ہائی کمیشن میں تعینات دفاعی، بحری اور فضائی مشیروں کو پاکستان چھوڑنے کا حکم اور ہندوئوں کا داخلہ بند کرنے جیسے اقدامات پاکستان کے اس عزم کو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اب ہر جارحیت کا سفارتی اور عملی میدان میں بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان اقدامات میں سب سے زیادہ اہم قدم پاکستان کی جانب سے فضائی حدود کی بندش ہے۔ جب پاکستان نے 2019میں فضائی حدود بند کی تھیں تو بھارتی ایئر لائنز کو 80 کروڑ روپے یومیہ کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ اس بندش کے سبب بھارت کے طویل فاصلے کی پروازوں کا روٹ کئی گھنٹے طویل ہو گیا تھا، جس کے باعث نہ صرف ایندھن کے اخراجات میںنمایاں اضافہ ہوا بلکہ وقت اور آپریشنل لاگت میں بھی بھاری نقصان ہوا۔ اس اقدام کو دوبارہ نافذ کرنے کا مطلب ہے کہ بھارت کی ایوی ایشن انڈسٹری جو پہلے ہی خسارے میں چل رہی ہے، اسے مزید دھچکا لگے گا۔ اسی طرح پاکستان کے ساتھ بالواسطہ تجارت کی معطلی بھارت کی بر آمدات کو بھی متاثر کرے گی۔ اگر چہ دوطرفہ تجارت محدود ہے تاہم بھارت کی کوشش رہی ہے کہ علاقائی تجارت کو وسعت دی جائے اور پاکستان اس میں جغرافیائی مرکز یت کی وجہ سے ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے زمینی راستے بند کرنے سے بھارت کی کنیکٹیویٹی پالیسی کو بڑا دھچکا لگے گا۔ علاوہ ازیں ہندویاتریوں کا داخلہ بند کرنا بھارت کے اندر مذہبی حلقوں میں بے چینی پیدا کر سکتا ہے۔ پاکستان میں واقع ہندو مذہب کے مقدس مقامات جیسے ہنگلاج ماتا، کٹاس راج اور شادانی دربار کی زیارت کیلئے ہر سال ہزاروں بھارتی ہندو پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو معیشت پر ان اقدامات کا وقتی اثر ضرور پڑے گا، تاہم قومی وقار، خود مختاری اور آبی تحفظات کے مقابلے میں یہ قیمت معمولی ہے۔ پاکستان کے پانی کا 80فیصد انحصار دریائے سندھ پر ہے، جو سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصہ میں آتا ہے۔ اگر بھارت اس معاہدے کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ پاکستان کیلئے اعلان جنگ کے مترادف ہو گا۔ عالمی برادری، خصوصاََ ورلڈ بینک، اقوام متحدہ اور مغربی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ بھارت کے ان غیر ذمہ دارانہ اقدامات کا فوری نوٹس لیں۔ بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی کوشش نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالمی آبی تنازعات کے مستقبل کیلئے بھی ایک خطرناک مثال بن سکتی ہے۔ اگر آج بھارت کو بغیر کسی مزاحمت کے یہ معاہدہ توڑنے دیا گیا، تو کل کوئی اور ملک بھی کسی عالمی معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کی جرأت کرے گا۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ چین، ایران، ترکی، سعودی عرب اور روس جیسے دوست ممالک سے فوری رابطہ کر کے ایک مؤثر سفارتی دائرہ قائم کرے۔ ساتھ ہی ساتھ، بین الاقوامی عدالت انصاف میں باقاعدہ کیس دائر کر کے بھارت کی ممکنہ آبی جارحیت کو قانونی چیلنج بھی دیا جائے۔ اب وقت آچکا ہے کہ قوم متحد ہو کر پاک فوج کے شانہ بشانہ اس نازک وقت میں قومی سلامتی، خود مختاری اور پانی جیسے بنیادی حق کے تحفظ کیلئے ہر ممکن قدم اٹھائے، اگر ہم آج خاموش رہے تو کل ہمارے کھیت، ہمارے دریا اور ہماری نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
دوسری جانب کوئٹہ، پشین اور بنوں میں حالیہ دہشتگردانہ کارروائیوں نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ ملک میں امن و استحکام کو لاحق خطرات بدستور موجود ہیں۔ کوئٹہ میں بم ڈسپوزل اسکواڈ کی گاڑی کے قریب ہونے والے بزدلانہ حملے میں4 سکیورٹی اہلکار شہید اور 3زخمی ہو گئے۔ پشین میں سی ٹی ڈی کی بروقت کارروائی کے نتیجے میں 9شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا جبکہ بنوں میں بھی سکیورٹی فورسز نے کامیاب آپریشن کے دوران6 خوارج کو منطقی انجام تک پہنچایا۔ ان واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہماری فورسز دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پوری طرح مستعد اور پرعزم ہیں۔ تاہم اس عزم کو پائیدار نتائج تک پہنچانے کیلئے ضروری ہے کہ دہشتگردوں کے سہولت کاروں کے خلاف بھی اسی شدت اور زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کی جائے۔ نیشنل ایکشن پلان پر مزید موثر عملدرآمد اور اس میں وقت کی ضرورت کے مطابق سخت ترامیم ناگزیر ہو چکی ہیں۔ ہمیں نہ صرف دہشتگردوں بلکہ ان کے پس پردہ عناصر اور ان کے مالی، سماجی، اور فکری معاونین کے خلاف بھی بلاامتیاز کارروائی کرنی ہو گی۔ ملک میں پائیدار امن اور ترقی کا خواب صرف اسی وقت شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے جب دہشتگردی اور اس کے ڈھانچے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ یہ قربانیاں ہم پر ایک اجتماعی ذمے داری بھی عائد کرتی ہیں کہ ہم بحیثیت قوم دہشتگردی کے خلاف اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں اور اس ناسور کے خاتمے کیلئے ہر ممکن کردار ادا کریں۔
واپس کریں