
اس سال مزدوروں کا عالمی دن "یکم مئی" جنگ کے سائے تلے منایا جارہا ہے۔ ایک طرف پاکستان اور ہندوستان، دو ایٹمی طاقتیں، اس وقت جنگ کے دہانے پر پہنچ گئی ہیں۔ دوسری طرف سامراجی جنگیں ہیں جن کی بدترین شکل غزہ کی نسل کشی میں ملتی یے۔ اس نسل کشی کے ساتھ امریکہ اور اسرائیل نے خطے بھر میں تباہی پھیلائی ہے جس میں عراق، یمن، لیبیا، شام، لبنان اور دیگر ممالک پر مسلسل بمباری کی ہے اور اب ایران کے ساتھ جنگ کی دھمکی دی جارہی ہے۔ اسی طرح یوکرائن کو مسلسل پراکسی جنگ میں استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے اب یورپی معیشیت بھی عسکریت کے تابع ہوگئی ہے۔ آخر میں چین کے محاصرے کے لئے پورے ایشیا میں امریکی فوجی اڈے بنانے کا سلسلہ جاری ہے جس سے خطے میں کشیدگی بڑھتی جائے گی۔
ان معاملات کو مارکسی نقطہ نظر سے کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟ سرمایہ داری صرف فیکٹری اور کھیت میں مزدوروں کے استحصال کا نام نہیں ہے بلکہ Michael Parenti کے مطابق ایک معاشی اور سماجی نظام ہے جس کی بنیاد نہ صرف استحصال ہے بلکہ جنگ اور نسل کشی اس کا اہم جز ہے۔ مثال کے طور پر سرمایہ داری کے لئے زمین اور دیگر وسائل کو بڑے پیمانے پر نجی ملکیت میں رکھنا انتہائی اہم یے۔ لیکن تاریخی طور یہ وسائل اجتماعی ملکیت کا حصہ تھے۔ وسائل کو کمیونٹی سے چھیننے کے لئے جنگ ایک اہم ہتھیار تھا جس کے زریعے مغربی سرمایہ داروں نے امریکہ، لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں وسائل پر قبضہ کیا۔ جہاں پر مزاحمت ہوئی، وہاں پر نسل کشی کردی گئی جس کی بدترین مثال امریکہ میں ملتی ہے جہاں پر مقامی آبادی کا تقریبا مکمل خاتمہ کردیا گیا۔ اسی طرح افریقہ کے اندر جنگ مسلط کرکے وہاں کے لیبر کو غلام بنا کر امریکہ میں زمینوں پر استعمال کیا گیا۔ یعنی امریکی معیشیت کو آباد کرنے کے لئے افریقہ کو برباد کردیا گیا۔
18 ویں صدی سے لے کر آج تک وسائل کے حصول کے لئے مختلف سرمایہ دار ممالک کا آپسی تضاد بھی جنگ کی ایک بڑی وجہ بنتا رہا۔ 18ویں صدی میں امریکہ کے بر اعظم پر برطانیہ، اسپین، اور فرانس مسلسل ایک دوسرے کے خلاف جنگیں لڑرہے تھے۔ نپولیئن Napoleon کے دور میں یہ لڑائی افریقہ اور مشرقی وسطی کے ساتھ ساتھ یورپ کے اندر بھی جنگی صورتحال اختیار کرگئی جس کی بالآخر بدترین شکل پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی شکل میں سامنے آئی جس میں لاکھوں نہیں، کروڑوں لوگوں نے ایک دوسرے کا قتل عام کیا۔
20 ویں صدی میں جنگ کا ایک اہم ہدف تیسری دنیا کے ممالک میں سوشلسٹ اور سامراج مخالف تحریک کو روکنا تھا۔ اس کا ایک طریقہ براہ راست امریکہ کی طرف سے براہ راست حملے کرنا تھا جیسے ویتنام، کوریا، کمبوڈیا اور کئی دیگر ممالک میں کیا گیا۔ دوسرا طریقہ پراکسی جنگ تھا جس میں کسی گروہ کو انقلابی حکومتوں کے خلاف استعمال کرکے اس خطے کو تباہ کیا گیا تاکہ وہ انقلاب کسی اور ملک کے لئے مثال نہ بنے۔ 1980 میں نکاراگوا میں Sandinistas کی حکومت کے خلاف Contras کو اور افغان حکومت کے خلاف مجاہدین کو اسلحہ فراہم کرنا اسی حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔
جنگ کی ایک اور خصوصیت یہ یے کہ وہ استحصال شدہ طبقات کو اپنے ہی استحصالی طبقے کے ساتھ جڑنے پر مجبور کرتی ہے۔ پہلی عالمی جنگ ہر جتنی بھی تحقیق ہوئی ہے وہ بتاتی ہے کہ جنگ سے پہلے پورے یورپ میں سرمایہ داری اور استعماری نظام کے خلاف نفرت بڑھ رہی تھی لیکن جنگ کے اعلان کے بعد راتوں رات یورپی عوام اپنے ملک کے حکمران طبقات کے پیچھے خاموشی سے کھڑے ہوگئے۔ جنگ وہ glue ہے جس کے زریعے حکمران ایک بکھرے ہوئے معاشرے کو جوڑتے ہیں۔ اس وقت ہندوستان میں انتہا پسند مودی سرکار اسی جنگی جنون کے ذریعے اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت واپس حاصل کرنا چاہتی ہے۔
لیکن حقیقت میں حکمران طبقات جنگ اپنوں کے خلاف لڑرہے ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں اس وقت کئی صوبوں میں ملٹری آپریشن چل رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ معدنیات تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ پاکستان میں بھی ملٹری آپریشن ڈالری جنگوں اور قدرتی وسائل تک رسائی کےلئے کئے گئے ہیں۔ جب بیرونی جنگیں بھی ہوتی ہیں تو اس میں اسلحے کی کمپنیوں کے مالکان سے لے کر معدنیات اور زمین کے کاروبار پر اجارہ داری قائم کرنے والوں کا فائدہ ہوتا ہے جب کہ ایک ملک کا محنت کش سپاہی بن کر دوسرے ملک کے محنت کش کو اپنے استحصالی حکمران طبقے کی خاطر قتل کررہا ہوتا ہے۔ جنگ محنت کشوں کے لئے انفرادی اور طبقاتی طور پر ایک تباہ کن عمل ہے جس میں ان کے بہتے ہوئے خون کو چند لوگ ڈالروں میں تبدیل کردیتے ہیں۔
ایسے میں جب مارکس محنت کشوں کے راج کی بات کرتا ہے تو وہ صرف فیکٹری میں تنخواہ کی بات نہیں بلکہ ایک نئے نظام کی بات کرتا ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں کروڑوں انسانوں کو چند لوگوں کی عیاشیوں کے لئے قربان نہ کرنا پڑے۔ جس میں قدرتی وسائل کا مقصد سماج اور ماحولیات کی بہتری ہو تاکہ عام انسان ترقی کرسکیں۔ جس میں کسی کی جیت کا مطلب کسی دوسرے معاشرے کی تباہی نہ ہو بلکہ اشتراکیت کے اصولوں کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ تعاون میں اپنی بہتری اور جیت دیکھیں۔ اور رنگ، مذہب، زبان اور قومیت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت کرنے کے بجائے انسانوں کی سانجھی مشکلات اور سانجھی خواہشات کو پرکھیں تاکہ ایک پر وقار تہذیب کو تشکیل کیا جاسکے۔ یعنی محنت کش طبقےکی لڑائی صرف اپنی اجرت تک نہیں بلکہ اس کا تاریخی ہدف ایک نیا معاشرہ تشکیل کرنا ہے جس میں انسان کا استحصال ختم ہو اور جنگ کو دور جہل کے لئے مختص عجائب گھر تک محدود کردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں پہلا سوشلسٹ انقلاب 1917 روس میں آیا تو اس کی بنیادی وجہ عوام میں پہلی عالمی جنگ سے نفرت تھی اور اس انقلاب کے بنیادی مطالبات "امن، روٹی اور زمین" تھے، یعنی جنگ، بھوک اور استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کے لئے جدوھہد کا اعلان۔
سرمایہ داری انسانیت کو تقسیم، نفرت، جنگ اور تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ایسے نظام ہلاکت کے اندر انسانوں کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں محنت کشوں کا زاویہ امن، انصاف اور ترقی ہے جسے سوشلزم کہتے ہیں۔ یکم مئی پر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ مڈل کلاس یعنی وکلا، ڈاکٹر، پروفیسر وغیرہ انقلاب کی مدد کرسکتے ہیں لیکن بنیادی سماجی رشتوں کو تبدیل کرنے کے لئے محنت کش طبقے کا جدوجہد میں ہراول دستے کا کردار ہے۔ بربریت یا انسانیت، جنگ یا امن، سرمایہ داری یا سوشلزم، آج ان دونوں راستوں میں ایک کے چناو کا وقت آچکا ہے۔
واپس کریں