دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تلخ ترین حقائق اور مقامِ عبرت
No image احتشام الحق شامی۔ جمہوریت مخالف اور ملکی سیاست میں بار بار اور بے جا ٹانگیں اڑانے والی طاقت ور قوتوں کو قوم سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرنے سے پہلے جمہوریت اور سول بالادستی کا نعرہ بلند کرنے والے سیاستدانوں پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے سابقہ کردار پر قوم سے معافی مانگیں۔ ڈیکٹیٹر جنرل ایوب خان کو ڈیڈی کہنے، اس کی کابینہ میں وزیر بننے اور پہلے سول مارشل لاء ایڈمینسٹریٹر ہونے، خفیہ ایجنسیوں کی بنائی ہوئی نو ستاروں والی آئی جے آئی کے زریعے اقتدار میں آنے، اشٹبلشمنٹ یافتہ ایم ایم اے کے زریعے کے پی کے میں حکومت کرنے، جنرل ضیاء الحق کے سیاسی وارث، جنرل جیلانی، جنرل پرویز مشرف، جنرل کیانی اور باجوہ ڈاکٹرائین سرکار کے سہارے اقتدار تک پہنچنے والے لیڈران اگر قوم سے اپنے سابقہ کردار پر معافی مانگ کر اور مستقبل میں غیر سیاسی قوتوں کے ساتھ ساز باز کر کے اقتدار میں نہ آنے کا وعدہ کریں تو جہاں ان کے اپنے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہو گا تو دوسری جانب ایک عام شہری آئندہ انہیں ماضی میں ڈیکٹیٹروں اور اشٹبلشمنٹ کے سہارے اقتدار میں آنے کا طعنہ نہیں دے سکے گا۔
اس حقیقت اور المیہ سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ماضی کے اور موجودہ سیاستدانوں کی آپس کی سیاسی چپقلش کے باعث ملک کو قومی سیاست، ملکی نظام، جمہوریت اور خود سیاستدانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا،جس کا فائدہ براہِ راست غیر جمہوری قوتوں اور عناصر نے اٹھایا اور انہوں نے اپنا نظام اور سسٹم مضبوط کیا۔ سیاستدانوں کے آپس کے جھگڑوں کے باعث ہی اسٹبلشمنٹ کی یہ خوش بختی رہی کہ اسے ہر دور میں کوئی نہ کوئی سیاسی مہرہ دستیاب رہا اور یوں غیر جمہوری عناصر کی سازشیں کامیاب ہوتی رہیں۔ گویا سیاستدانوں نے ہی غیر سیاسی عناصر کے ہاتھ مضبوط کئے،لیکن تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے جب بھی سیاستدان آپس میں متحد ہوئے اشٹبلشمنٹ کو منہ کی کھانی پڑی۔ مثلاً جب سابق وزیرِا عظم نواز شریف نے اپنی جلاوطنی کے دوران بے نظیر بھٹو شہید سے چارٹرڈ آف ڈیمکوریسی سائن کیا تو مکے دکھانے والے سابق ڈیکٹیٹر پرویز مشرف کو پھر پیچھے ہٹنا پڑا۔
اسی طرح ماضی میں، تحریک بحالی جمہوریت یعنی ایم آر ڈی نے اُس دور یعنی سّتر اور اسّی کی دہائی میں غیر سیاسی قوتوں کے خلاف سیاستدانوں کا اتحاد قائم کرنے کی روایت قائم کی جب اس وقت کے آمر جنرل ضیاء الحق نے ملک میں سیاست اور جمہوریت کو ختم کر نے میں کوئی کثر نہ چھوڑی تھی۔ گو کہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد ایم آر ڈی ڈیکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کو اقتدار سے اتارنے میں ناکام رہا، لیکن ملک میں غیر سیاسی مداخلت کے خلاف ایک ستارہ ثابت ہوا اور ڈیکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے آمریت کے خلاف ایک محاذ کے طور پر قائم رہا۔ لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ ایم آر ڈی میں شامل سیاسی جماعتوں کے جمہوریت پسند لیڈران عوام کو ماموں بنا کر اپنی اپنی بولی لگوا کر جنرل ضیاء الحق کی آمریت والے دورِ حکومت میں خود اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔
پھر ملک پر ڈیکٹیٹر پرویز مشرف کا قہر اور دورِ آمریت نازل ہوا، ق لیگ جیسی سیاسی پارٹیاں وجود میں آئیں جن کے لیڈروں نے ڈیکٹیٹر پرویز مشرف کی گود میں بیٹھ کر قوم کو جمہوریت کے گیت سناسنا کر بے وقوف بنایا اور پھراس کے بعد ملک میں وہ حکومت قائم ہوئی جس کا سربراہ عمران نیازی اشٹبلشمنٹ کے کٹھ پتلی وزیرِ اعظم کے طور پر دنیا میں جانا جاتا تھا اور دن رات راگِ جمہوریت بھی الاپتا تھا۔
آج اگر ملک کی تمام دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے خلاف کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہیں تو انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ پھر مکافاتِ عمل کا شکار ہو رہی ہیں۔ دو بڑی سیاسی جماعتیں یعنی پی پی پی اور مسلم لیگ ن بھی ماضی میں اشٹبلشمنٹ کی حمایت یافتہ رہی ہیں۔
مکافاتِ عمل کی اس سے بہتر مثال اور کیا ہو گی کہ جب اشٹبلشمنٹ کے خاص نمائندے سابق صدر غلام اسحاق خان نے انیس سو تیرانوے میں اشٹبلشمنٹ کے حمایت یافتہ نواز شریف کی حکومت کو چلتا کیا اور خود اقتدار پر قبضہ کیا تھا لیکن غلام اسحق خان کو بھی بعد میں صدارت سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ درِ حقیقت اس وقت کے آرمی چیف جنرل کاکڑ نے دونوں کے اقتدار کا خاتمہ کیا تھا۔ مقامِ عبرت بنے ہوئے خان صاحب کو پہلے سے یاد رکھنا چاہیئے تھا کہ مصنوعی طریقوں سے اقتدارمیں آنے اور غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دینے کا بل آخر انجام ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ اس وقت ان کے ساتھ ہو رہا ہے۔
واپس کریں