13 ستمبر کی شام، تحریکِ انصاف کے بانی، عمران خان کے ترکش نے زہر میں بجھا ایک اور تیرچلایا۔ اُنکے، نیلے نشان والے باضابطہ ’ایکس‘ اکائونٹ سے ایک طویل پیغام جاری ہوا۔ اِس پیغام میں ایک بار پھر آرمی چیف سید عاصم منیر کو نشانہ بنایاگیا۔ ایک بار پھر حمودالرحمن رپورٹ کی ورق گردانی کی گئی۔ ایک بار پھر یحییٰ خان اور مجیب الرحمن کی یادیں تازہ کی گئیں۔ ایک بار پھر قاضی فائز عیسیٰ پر سنگ باری کی گئی۔ ایک بار پھر ’’میرے پاکستانیو‘‘ کو انقلاب بپا کرنے کیلئے سڑکوں پر آنے کیلئے اُکسایا گیا ۔
اڑھائی ماہ قبل، جون کے پہلے ہفتے میں بھی ایک ایسا ہی حشربداماں ٹویٹ خان صاحب کے آفیشل اور مصدقہ اکائونٹ سے آیا تھا۔ اُس میں بھی آرمی چیف سید عاصم منیر اور یحییٰ خان کی تصاویر پہلو بہ پہلو سجاتے ہوئے باور کرایاگیا تھا کہ آج کے حالات بھی سقوط ڈھاکہ جیسے ہیں اور ’’فردِواحد‘‘ ملک کی تقدیر سے کھیل رہا ہے۔ تب خاصا شور مچا تھا اور پی۔ٹی۔آئی کو مدافعانہ پالیسی اختیار کرنا پڑی تھی۔ خان صاحب کے قریبی ساتھیوں نے رنگارنگ وضاحتیں پیش کیں۔ رؤف حسن نے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اطلاع دی کہ ہمارا اکائونٹ تو امریکہ سے ہینڈل ہوتا ہے۔ علی محمد خان نے وعدہ کیا کہ آئندہ خان صاحب کی اجازت کے بغیر اُنکے اکائونٹ سے کوئی بیان جاری نہیں ہوگا۔ خان صاحب نے اُس وقت بھی واضح تردید یا تصدیق کے بجائے گومگو کی حکمتِ عملی اختیار کی تھی۔ عوام کو گھروں سے نکلنے اور انقلاب بپا کرنے کی تلقین کرنیوالے بانی تحریکِ انصاف کے اپنے پیکر خاکی میں اتنی جان نہیں کہ وہ اپنا سینہ تھپتھپا ہوئے کہیں__ ’’ہاں یہ میرا ٹویٹ ہے۔‘‘
پی۔ٹی۔آئی کے فدائین کا نعرہ ہے__ ’’عمران نہیں تو پاکستان نہیں۔‘‘ درجنوں واقعات ایسے ہیں جن سے تصدیق ہوتی ہے کہ خود عمران خان بھی اسی فلسفۂِ سیاست کو اپنی سیاسی حکمتِ عملی کا جزوِ اعظم خیال کرتے ہیں۔ اُن کے وزیراعظم بننے سے پہلے کی الف لیلہ کو ایک طرف رکھتے ہوئے اُن کی حجلۂِ اقتدار سے رخصتی کے بعد کی کہانی بھی کچھ کم ہیجان خیز نہیں۔ عمران خان ہماری تاریخ کے پہلے اور آخری وزیراعظم ہیں جنہیں ایوان نے اپنے ووٹوں کے بل پر، ایک شفاف آئینی مشق کے ذریعے گھر کا راستہ دکھایا۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان تو قتل ہوگئے۔ خواجہ ناظم الدین سے شہبازشریف تک کوئی بے مہریِٔ حالات کی تاب نہ لاکر مستعفی ہوگیا۔ کسی کا سَر 58 (2-B) کی شمشیر سے قلم کر دیا گیا، کوئی بے مہار ججوں کے قہر کا نشانہ بن گیا اور کوئی فوجی آمروں کا لقمہ۔ کسی ایک کیخلاف بھی ایوان نے عدم اعتماد نہیں کیا۔ آئی،آئی چندریگر کیخلاف اسمبلی میں بغاوت کے آثار اُبھرے اور قرارداد عدمِ اعتماد نے انگڑائی لی تو وہ صرف 55دِن کی وزارتِ عظمی کے بعد خود ہی استعفیٰ دیکر گھر چلے گئے۔ اپنی پیشانی کو داغِ ندامت سے بچالیا۔
محرکات، اسباب اور وجوہات سے قطعِ نظر لوحِ تاریخ پر لکھی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ اُس ایوان نے عمران خان پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا جس نے اُنہیں اعتماد کی سند دی تھی۔ قصّہ تمام ہوا۔ خان صاحب نے اس عمومی جمہوری روایت کو سانحہ سمجھ کر جان کا روگ بنالیا۔ ایوان ہی کو نہیں پاکستان کو بھی کوسنے دینے لگے۔ عدم اعتماد کی چاپ سنتے ہی انہوں نے ’’سائفر‘‘ سے کھیلنے کا سرکس سجایا۔ امریکہ اور فوج پر سازش کا الزام لگایا۔ ہماری سفارت کاری کی راہ میں اُسی طرح کے کانٹے بوئے جس طرح کے کانٹے اُنکے وزیر سرور خان نے پی۔آئی۔اے کی راہ میں بوئے۔
سید عاصم منیر کی تقرری روکنے کیلئے ایساسرکس لگایا جس کی مثال پاکستان تو کیا دنیا کی تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔ اگلا مشن یہ ٹھہرا کہ آئی۔ایم۔ایف پاکستان کو قرض نہ دے۔ پاکستان کے لوگ افلاس کا شکار ہوکر اُن کے ’’عہدِ زریں‘‘ کی یاد میں آہیں بھرنے لگیں۔ اپنے سابق وزیرخزانہ اور سینیٹر، شوکت ترین کے ذریعے خیبرپختون خوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو حکم دیا کہ وہ آئی۔ایم۔ایف کو خط لکھ کر خبردار کریں کہ پاکستان کی مدد نہ کی جائے۔ پھر خود آئی۔ایم۔ایف کو تنبیہ آمیز خط لکھا کہ پاکستان چونکہ انسانی حقوق پامال کررہا ہے اسلئے اُسے ہرگز مدد نہ دی جائے۔
مزید دبائو بڑھانے کیلئے اپنے فدائین کے ذریعے آئی۔ایم۔ایف ہیڈکوارٹرز کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ پھر لاکھوں ڈالرز سے خریدی گئی لابنگ فرمز کے ذریعے امریکی کانگریس سے پاکستان مخالف قرارداد منظور کرائی۔ غیرملکی سفارت خانوں میں وفود بھیج کر اُنہیں باور کرایا کہ پاکستان کی صورتِ حال تو بھارتی مقبوضہ کشمیر اور غزہ سے بھی بدتر ہے۔ زلفی بخاری کے ذریعے برطانوی ہائوس آف لارڈز سے پاکستان مخالف بیانات جاری کرائے۔ اپنے ہمدم دیرینہ زلمے خلیل زاد کو عالمی سطح پر فوج اور ریاست کیخلاف زہرافشانی پہ اُبھارا۔ اس ساری تگ ودو میں اُن کا مقصد ذاتی سیاسی اہداف اور نشانہ پاکستان رہا۔
9 مئی ، اشتعال اور ملک دشمنی کا نقطہ عروج تھا۔ یہ سادہ ترین الفاظ میں ایک باغیانہ سازش تھی۔ اس کی پہلی کڑی پر کامیابی سے عمل ہوگیا۔ اگلے دو مراحل، فوجی قیادت کی دانشمندی اور بروقت اقدام کے باعث ناکام ہوگئے۔ دنیا کے کسی حصّے میں ریاست پر ایسا کھلا حملہ ہوا ہوتا تو اس کے کردار اپنے انجام کو پہنچ چکے ہوتے لیکن ہمارے ہاں جزا وسزا کے معیار انوکھے ہیں۔ عدالت، آرمی ایکٹ کے تقاضوں کے سامنے دیوار کھڑ ی کرکے آسودہ ہوگئی۔اکتوبر میں اِس عبوری فیصلے کو ایک سال ہوجائے گا۔ یہ ہے وہ ماحول جس کے سبب عمران خان بجا طورپر سمجھنے لگے ہیں کہ وہ کچھ بھی کہیں، کچھ بھی کریں، کچھ بھی لکھیں، کچھ بھی ٹویٹ کریں، کوئی اُن سے باز پُرس نہیں کرسکتا۔پاکستان کے طول وعرض پر محیط آئین، اُن کی دیوتائی شخصیت کا احاطہ نہیں کرتا، کسی بھی قانون کی کوئی شق اُن پر لاگو نہیں ہوتی، تعزیراتِ پاکستان کا کوئی ضابطہ انہیں میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔
آئین وقانون کی بے چارگی، ریاست کی بے حکمتی اور عدلیہ کی معشوقانہ فراخ قلبی نے اُنہیں یہ باور کرا دیا ہے کہ وہ کوئی بھی جُرم کرلیں ان پر دائمی استثنیٰ کی چادر تنی ہے۔ تازہ ترین ٹوئٹر پیغام، 9 مئی کا ’پرنٹ ایڈیشن‘ ہے۔ اس کے ایک ایک لفظ سے آگ کے شعلے لپک رہے ہیں۔ یہ اوّل وآخر ایک بغاوت نامہ ہے۔ تصوّر کیجئے کہ اگر یہی باغیانہ بیان کسی اور چھوٹی یا بڑی جماعت کے کسی راہنما کی طرف سے آتا تو اس پر کیا گزرتی؟ بیس سال قبل، جاوید ہاشمی کوہر سُو گردش کرنے والا ایک خط دکھانے پر غدّاری، سازش اور بغاوت کے الزام میں 23 سال قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔
ذرا دُور کے ماضی کو جانے دیجئے، گزشتہ دو برس میں، سائفر سے ٹوئٹر تک ایک مخصوص ریاست مخالف اور بڑی حد تک ملک دشمن رویہ خان صاحب کے کردار وعمل پر حاوی نظر آتا ہے۔ اسے وہ ’’سیاست‘‘ قرار دیتے ہیں۔ یہی اوصاف اُن کی جماعت کے رَگ وریشہ میں بھی سماگئے ہیں۔ حصولِ اقتدار کے غیرجمہوری حربوں، عہدِاقتدار کے فسطائی کارناموں اور بعدازاقتدار کے وطن دشمن رویّوں کو سمیٹ کر اگر نودریافت شدہ مصنوعی ذہانت (AI) کو کوئی چہرہ تراشنے یا نام دینے کیلئے کہا جائے تو وہ دو سیکنڈ میں بڑا واضح جواب دے دی گی۔ پھر یہ بھی پوچھیے کہ ایسے رویوں کے ملغوبے کو کیا نام دیں گے؟ تو وہ کچھ بھی کہہ لے گی، ’’جمہوری سیاست‘‘ کا نام نہیں دے گی۔
واپس کریں