دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
گڈ ٹو سی یو نہ گڈ بائے۔ حامد ولید
No image ایک وقت وہ تھا جب عمران خان نیب کی حراست میں جانے کے بعد سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں دیکھتے ہی گڈ ٹو سی یو کہا تھا، انہیں ایک شب کے لئے عدلیہ کا مہمان بنایا تھا،القادر ٹرسٹ کیس میں نیب کی جانب سے گرفتار چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انکی فوری رہائی کا حکم دیا تھا۔ عمران خان کی خواہش تو تھی کہ انہیں بنی گالہ جانے دیا جائے مگر اس وقت کے چیف جسٹس نے انہیں رینجرز سکیورٹی میں پولیس لائنز گیسٹ ہاؤ س پہنچا یاتھااور کہا تھا کہ گیسٹ ہاؤس میں تین کمرے ہیں،گپ شپ لگائیے،سو جائیے،صبح عدالت میں پیش ہو جائیے۔چیف جسٹس بندیال نے انہیں یہ چھوٹ بھی دی تھی وہ خاندان کے 6ارکان سمیت 10افراد کو گیسٹ ہاؤس میں ساتھ رکھ سکتے ہیں،اس کے ساتھ عدالت کی معصوم سی خواہش کا اظہار بھی کہ آپ خود ملک میں فسادات کی مذمت کریں، اس کے ساتھ اس خدشے کا بھی اظہار کیا تھا کہ آپ ہماری تحویل میں ہیں، ڈر ہے ہماری کسٹڈی میں کچھ نہ ہو،جس کے جواب میں عمران خان نے کہا آپ کی کسٹڈی کی وجہ سے برکت آگئی!اس سے قبل تب عمران خان کو ججز گیٹ سے سپریم کورٹ میں داخل کیا گیا تھا۔
اب ایک یہ وقت ہے کہ گزشتہ جمعرات کے دن یعنی 16 مئی کو سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر ایک میں عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔ بی بی سی کے مطابق درجنوں افراد نے اسیر سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کو تقریبا 9 ماہ گیارہ دن بعد اڈیالہ جیل سے لائیو یعنی ویڈیو لنک پردیکھا،یہ ایسا موقع تھا جسے دیکھنے کے اتنے طلبگار تھے کہ کمرہ عدالت نمبر ایک، جو چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسی کی عدالت ہے، میں ایسا مجمع لگا کہ بہت سے لوگوں کو کورٹ روم نمبر سات اور آٹھ میں بٹھانا پڑا جہاں ویڈیو کی سہولت تک میسر نہ تھی۔ تاہم ان عدالتی کمروں میں بیٹھے لوگ عدالتی کارروائی سن ضرور سکتے تھے۔چند دن قبل سپریم کورٹ نے نیب ترامیم سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کا حکم دیا تو اڈیالہ جیل کے حکام کو اس ضمن میں ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کو یہ یقین تھا کہ جس طرح انٹراکورٹ اپیلوں کی چند روز پہلے ہونے والی سماعت کی لائیو سٹریمنگ کی گئی تھی اسی طرح جمعرات کو بھی وہی عمل دہرایا جائے گا، اسی امید پر شاید تحریک انصاف کو ایسا لگ رہا تھا کہ جمعرات کو عدالت میں ویڈیو حاضری کے دوران عمران خان بات تو ججوں سے کر رہے ہوں گے لیکن خطاب قوم سے بھی ہو جائے گا،لیکن ان امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب یہ بتایا گیا کہ عدالتی کارروائی کی لائیو سٹریمنگ نہیں ہو رہی۔تاہم عمران خان جب ویڈیو لنک پر نمودار ہوئے تو کمرہ عدالت میں موجود تحریک انصاف کارکنان، بالخصوص خواتین، کے جذبات دیدنی تھے۔ چند خواتین کی آنکھوں میں آنسو بھی نظر آئے جنھیں وہ چھپانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ تحریک انصاف کارکنان ٹی وی سکرین کی جانب ایسے ہاتھ ہلا رہے تھے جیسے انھیں یقین ہو کہ عمران خان انھیں دیکھ رہے ہیں،لیکن ایسا بالکل نہیں تھا کیونکہ جیل کے اندر واقع ای کورٹ میں جو کیمرہ لگایا گیا تھا وہ صرف ان پانچ ججوں پر ہی فوکس تھا جو ان اپیلوں کی سماعت کر رہے تھے یعنی عمران خان صرف اور صرف عدالت میں بیٹھے ججوں کو ہی دیکھ سکتے تھے۔
عمران خان کی بکھری ہوئی زلفیں دیکھ کر دوران سماعت ایک خاتون ورکر اس یقین کے ساتھ بار بار ٹی وی سکرین کی جانب ہاتھ ہلا ہلا کر انھیں بال سنوارنے کا اشارہ کر رہی تھیں جیسے عمران خان انھیں دیکھ رہے ہیں۔ کمرہ عدالت میں موجود کارکنوں کی کیفیت کا یہ عالم تھا کہ اگر عمران خان کسی بات پر مسکراتے تو وہ بھی مسکرانا شروع کر دیتے تھے۔سماعت کے دوران ہی عمران خان کی ایک تصویر، جس میں ان کو کیمرہ کا رخ کیے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، کمرہ عدالت سے باہر سوشل میڈیا کی دنیا میں پہنچ کر وائرل ہوگئی، بظاہر کسی نے یہ تصویر سکرین سے کھینچی جس کی اجازت نہیں لیکن جب تک عدالتی عملے کو اس واقعہ کا علم ہوا بہت دیر ہو چکی تھی۔ عدالتی عملے نے سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے ذمہ دار کا سراغ تو لگا لیا لیکن اس کا فائدہ نہ ہوا،یہ ضرور ہوا کہ ویڈیو سٹریمنگ کی نگرانی کرنے والے عدالتی عملے نے عمران خان کی ویڈیو کو، جو کہ پہلے پوری سکرین پر نظر آ رہی تھی، مینیمائزڈ یعنی چھوٹا کر دیا جسے جج حضرات نے فوری نوٹس کیا۔پانچ رکنی بنچ میں شامل جسٹس اطہر من اللہ، جن کی خود کی نظر بھی ٹی وی سکرین پر ہی مرکوز تھی، نے ویڈیو سٹریمنگ انچارج کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ عمران خان کی ویڈیو کو چھوٹا کیوں کیا گیا؟ تصویر لیک ہونے کے بارے میں آگاہ ہونے کے بعد جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کی ویڈیو پوری سکرین پر چلانے کا حکم دیا۔
اس سماعت سے قبل سابق وزیر اعظم سے ان کی وکلا ٹیم کے ارکان نے بدھ کی شام کو جیل میں ملاقات کی تھی اور انتظار پنجھوتھا کے مطابق عمران خان کو کہا گیا تھا کہ انھوں نے جو کچھ کہنا ہے، جمعرات کو ہی کہہ دیں کہ شاید انھیں دوبارہ موقع نہ ملے۔وکلا کی ہدایات کی روشنی میں عمران خان تیاری تو کرکے آئے ہوئے تھے، انھوں نے اپنے سامنے کچھ کاغذ بھی رکھے ہوئے تھے، لیکن تین گھنٹے سے زائد چلنے والی اس عدالتی کاروائی میں اس پانچ رکنی بنچ نے عمران خان کو ایک مرتبہ بھی بولنے کی اجازت نہیں دی۔
ہمیں تو افسوس اس بات کا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عمران خان کو گڈ ٹو سی یو کہانہ گڈبائے کہا، یوتھیوں کے دل پر کیا گزری ہوگی۔
واپس کریں