دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دنیا ہمارے بارے میں کیسے سوچتی اور پلانگ کرتی ہے؟
No image احتشام الحق شامی۔ ڈینیئل مارکی کونسل آن فارن ریلیشنز (CFR) میں بھارت، پاکستان اور جنوبی ایشیا کے سینئر فیلو ہیں، وہ جنوبی ایشیا میں سیکورٹی اور گورننس کے امور میں مہارت رکھتے ہیں۔ڈاکٹر مارکی متعدد اشاعتوں کے مصنف ہیں اور یو ایس پاکستان تعلقات کے مستقبل پر ایک کتاب No Exit from Pakistanکے بھی مصنف ہیں،2003 سے 2007 تک، ڈاکٹر مارکی نے امریکی محکمہ خارجہ میں سیکرٹری پالیسی پلاننگ سٹاف پر جنوبی ایشیا کا قلمدان سنبھالا۔ سرکاری ملازمت سے قبل، انہوں نے پرنسٹن یونیورسٹی کے شعبہ سیاست میں پڑھایا، جہاں انہوں نے بین الاقوامی سلامتی میں پرنسٹن کے ریسرچ پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس سے قبل وہ ہارورڈ کے اولن انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز میں پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو تھے۔
ڈاکٹر مارکی نے جانز ہاپکنز یونیورسٹی سے بین الاقوامی علوم میں بیچلر کی ڈگری اور پرنسٹن یونیورسٹی سے سیاست میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انہیں اسمتھ رچرڈسن اور میک آرتھر فاؤنڈیشن کی جانب سے اپنی تحقیق کی حمایت کے لیے گرانٹس سے نوازا گیا ہے۔
ڈاکٹر مارکی جیسے امریکی پالیسی میکر اور اہم تھنک ٹینک کا تعارف یہاں صرف اس لیئے کروا یا ہے تا کہ یہ جانا جا سکے کہ دنیا ہمارے بارے میں کیسے اور کیا سوچتی ہے اور ہمیں کیسے چلانا چاہتی ہے؟
ڈاکٹر مارکی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ”ہم نے آج سے 72 سال پہلے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ پاکستان کو ترقی کرنے اجازت بلکل نہیں دی جا سکتی، ہم پاکستان کو دنیا ئے اسلام کو لیڈ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس کے لئے ہم نے کچھ طریقہ اپنائے ہیں اور وہ طریقے یہ ہیں کہ پچھلے 72 سال سے ہم نے پاکستان کو اس قدر ڈی اسٹیبلائز یعنی غیر یقینی کیفیت میں رکھا کہ جتنا ہم مینیج کر سکیں۔اپنی کتاب میں وہ مذید لکھتے ہیں کہ”اور پھر ہم اس مینیج ڈی اسٹیبلائز پوزیشن کو اس طرح برقرار رکھتے ہیں کہ ہم پاکستانی لیڈرز کو خریدتے ہیں، سول اور ملٹری بیوروکریسی کے لیڈرز بھی، اس میں جرنلسٹ بھی ہیں، میڈیا ہاؤسز بھی ہیں اور اکیڈمی مشنز بھی ہیں“۔ ڈینئل مارکی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ”پاکستانی سیاسی لیڈرز یا میڈیا مالکان اپنے آپ کو بہت تھوڑی قیمت پر بیچ دیتے ہیں، اتنی تھوڑی قیمت کہ ان کو کوئی امریکہ جانے کا ویزہ ہی مل جائے یا ان کی اولاد کو بیٹوں یا بیٹیوں کو کوئی امریکہ ان اسکالرشپ مل جائے اور اس طرح کی چھوٹی لالچ پر وہ پاکستان کے مفادات کو آسانی سے بیچنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔“
واپس کریں