ایران،دینی جہادی سےفاتح سلطنت بننے تک ۔محی الدین بن احمد دین
مشرق وسطیٰ مستقل طور پر زیر مطالعہ رہتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی وہ کون سی طاقتیں، اقوام اورممالک ہیں جو خود کو سپر طاقت سمجھتی رہی ہیں مشرق وسطیٰ میں۔ کسی زمانے میں یہ اکیلا سعودی عرب تھا اور یہ عہد شاہ فیصل کا تھا، شاہ عبد اللہ کے عہد آتے ہوئے درمیان میں شاہ فہد کا عہد آتا ہے جب ایران سعودیہ کشمکش زوروں پر تھی۔ یہی وہ عہد ہے جس میں ایران نے اس عہد میں جو خمینی کی زندگی میں آٹھ سالہ ایران و عراق جنگ کاطویل مدتی تھا، اس عہد میں ایرانی قوم پرستی کو اپنے انداز فکر کی روشنی میں الجہاد عماد الدین و منہاج السعداء (جہاد دین کا ستون اور خوش قسمتوں کا طریقہ کار ہے)کو بطور دینی فکر کے اپنالیا تھا۔ عراق کی پشت پر تمام مالدار عرب تھے اور امریکہ بھی عرب و ایران کشمکش کے بہت گہرے اثرات، منفی زیادہ تر، پاکستان میں بھی طویل مدت تک موجود رہے ہیں، خمینی نے ایران کی خودی، خود شناسی کا جو ایران کو عہد دیا وہ یہی عراق کی طرف سے مسلط شدہ جنگ میں الجہاد عماد الدین ومنہاج السعداء‘‘ کا شعور ہے۔ کیا امام خمینی اپنےاس اندازفکرمیں کامیاب ہوئے؟ ناکام ہوئے، امریکہ و عرب بادشاہتیں صدام حسین کی زیر قیادت طویل مدتی جنگ میں ایران کو نیست و نابود نہ کرسکے، نہ ہی خمینی کی جگہ کوئی سیکولر، لادین، لبرل قیادت جنم لے سکی۔ یہی خمینی کی فتح تھی کہ پوری قوم ان آٹھ سالوں میں خمینی کے پیچھے پورے یقین کے ساتھ موجود تھی، ایرانی قیادت کو ختم کر دینے کے پرتشدد واقعات بھی ہوئے مگر خمینی یقین محکم نے لبرل، سیکولر، لادینی ان شاہ مخالف سیاسی قوتوں کو بھی کچل دیا جو اب خمینی انقلاب کی منتخب قیادتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتی تھیں۔ یہ ایران خون آلود عہد ایران کا دل شکن، دل سوز، آنسو رلاتا عہد ہے۔ اس زمانے میں ایران ، خمینی کا، ایرانی قوم کا متحد ہوکر کھڑے رہنا ہی تاریخ کا انمٹ نقش ہے اور یہ اثر تھا الجہاد عماد الدین و منہاج السعداء کا۔ ایران مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی طرح سپر طاقت بننےجارہا تھا۔
اگر اس انداز فکر کو ذرا افغانستان میں دیکھ لیں تو سوویت یونین آف رشیا سپر طاقت تھا۔ اس کی فوج کا افغانستان میں داخل ہو جانا خود افغانوں اور پھر پاکستان کے لئے بہت زیادہ پریشانی تھا، اس عہد میں اگر جنرل ضیاء الحق کی جگہ بھٹو بھی حکمران ہوتے تب بھی افغان، کمزور سے افغان، سوویت یونین آف رشیاء کے کمیونزم کے سامنے کھڑے ہو جاتے اور بھٹو بھی جنرل ضیاء کی طرح ان ناتواں مگر خودی او رخودشناسی کا دفاع کرتے افغانوں کےجہاد میں ساتھی ہوتا۔ جب افغان کھڑے ہوگئے اور پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہوگیا، تب بہت بعد میں عرب افغان جہاد کے مددگار رہے اور پھر امریکہ بھی۔ پھر دنیا نے دیکھاکہ افغان جہاد، افغان جہاد وقتال بن گیا اور ناقابل شکست روسی کمیونزم کا انہدام افغانستان میں ہوگیا، سپر طاقت دھڑام سے زمین بوس ہوگئی۔ یہ کمیونزم کیا تھا اور سوویت یونین آف رشیاء کیا تھا؟ ایک لادین ، سیکولر، لبرل، جانوروں کی دنیا ‘ جس میں دین، مذہب مکمل ممنوع تھا، جمہوریت کی جگہ اسٹالن کا جبر تھا، خوروشیف کا پرتشدد عہد حکمرانی تھا، جارج اور ویل بہت بڑا انگریز ادیب ہو گزارا ہے اس نے بہت مختصر سا ناول لکھا تھا اس کمیونسٹ سوویت یونین کے بارے میں۔ ’’اینمل فارم‘‘ اور یہ سارا ناول جانوروں کے کرداروں پر مشتمل تھا‘ بالآخر ’’اینمل کمیونسٹ فارم‘‘ افغانستان میں نیست و نابود ہوگیا۔ یہ ناقابل یقین کرشمہ الجہاد عماد الدین و منہاج السعداء کا عطیہ تھا‘ دین نے ، مذہب نے ، الجہاد نے سپر طاقت کو تباہ کرکے اس سے چودہ نئے ممالک پیدا کر دیئے تھے۔ اس جہاد افغانستان میں تمام عرب خواہ دینی سو چ کے تھے یا سیکولر و لبرل، سب اس جہاد کے ہمراہ تھے، یہ سب کچھ خاکسار نے خمینی کے الجہاد عماد الدین و منہاج السعداء کی وضاحت کے لئے لکھا ہے۔ اس عہد میں ایران کا اپنے پائوں پر کھڑے رہنا ہی اس کی فتح تھا۔
امام خمینی کے بعد ایرانی صدر آیت اللہ خامنہ ای رہبر کے ولایت فقیہ منصب پر فائز ہوئے۔ ایرانی قوم پرستی آیت اللہ خامنہ ای کی زیر قیاد ت اور پاسداران انقلاب کی فاتحانہ حکمت عملی جس کے بانی جنرل سلیمانی و رفقاء تھے، پورا عراق، پورا شام، پورا لبنان،پورا یمن ایرانی صوبے بن گئے اور ایران ایک مذہبی، دینی، اثنا عشری سلطنت بن چکی ہے۔ ڈاکٹر سمیع اللہ نے درست لکھا کہ تاریخ میں یہ پہلی اثنا عشری سلطنت ہےجس نے بغداد پر بھی اثنا عشری پرچم لہرایا ہے۔ یہ سب کامیابی خامنہ ای کے سبب ہے اور الجہاد عماد الدین کے سبب۔ ایرانی تاریخ میں مشرق وسطی کی تاریخ میں خمینی کی طرح خامنہ ای کا نام انمٹ نقش کے طور پر کندہ ہوچکا ہے اور سنی دنیا میں حماس و غزہ ازم ۔
ایرانی ایمپائر کا ایک صوبہ، اضافی حصہ ہے۔ اب ایران کا الجہاد عماد الدین ، یمن، لبنان، شام‘ عراق کو فتح کرنے کے بعد حماس و غزہ کی صورت، حزب اللہ کی صورت، انصار اللہ کی صورت، بشار الاسد کی صورت، ہر جگہ کامیاب ہے۔ اس کے جواب میں محمد بن زید النہیان جو60 سالہ مدبر اماراتی سیکولر ازم، لبرل ازم کا خلیجی نمائندہ ہے، کیا وہ ٹھہر سکا؟ سعودیہ کا محمد بن سلمان جو جدید، لبرل، سیکولر سعودی عرب کا بانی ، روایتی سعود ی وہابی قدیم سعودی عرب کو جیل خانے میں ڈالتا بہت مضبوط حکمت عملی رکھتا36 سالہ حکمران ہے، جس نے امریکہ کی ہر شاطرانہ چال کو ناکام بنایا مگر یمن میں حوثیوں کے خلاف کامیابی حاصل نہ کرسکا، بھلا کیوں محمد بن زید النہیان اور محمد بن سلمان یمن میں کامیابیاں حاصل نہ کرسکے؟ کیونکہ وہ مکمل لبرل و سیکولر ہیں ان کے ہاں مذہب، دین کی جگہ سیکولر ازم ،لبرل ازم حکمران ہے جس میں الجہاد عماد الدین و منہاج السعداء موجود ہی نہیں ہے۔ ہاں یہ شاہ فیصل اور اس سے پہلے شاہ عبد العزیز کے ہاں بطور عقیدہ زندہ جاوید تھا۔ کیاسمجھ آئی کہ محمد بن سلمان اور محمد بن زید النہیان کیوں ناکام اور رہبر ایران، ان کی پراکسیز کیوں ہرجگہ کامیاب ہیں؟ میری تمام تر محبتیں سعودی عرب، آل سعود اورخلیجی عربوں، آل نہیان کے ساتھ ہیں مگر جو کچھ تاریخ میں رقم ہوچکا ہے وہ تو حقیقت ہے۔ دوسری طرف نیتن یاہو صہیونی مذہبی یہودی اسرائیلی سوچ ہےجبکہ حماس، اہل غزہ بھی مذہبی، دینی سوچ ہے۔ ان دینی ، مذہبی سوچوں کا جدال ، قتال،جہاد، سالوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ خامنہ ای کی زندگی کے بعد ایران کے ساتھ کیا ہوسکتا ہے؟ یہ2025 ء کا عہد بھی ہوگا۔ اس پر کسی اگلی نشست میں بات ہوگی۔ انشاء اللہ
واپس کریں