پاکستان اور بھارت حقیقت کو تسلیم کر کے آگے بڑھیں۔سلمان بشیر
تاخیر سے ہی سہی پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کے بارے میں اچانک مختلف تھنک ٹینکس سے وابستہ سکالرز اور سابق سفارت کاروں کے مضامین سامنے آ رہے ہیں۔انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی کے بارے میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے فی البدیہہ بیان اور پارٹی قائد نواز شریف کے نئی دہلی کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش کو مدنظر رکھا جائے تو اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی یہ حکومت انڈیا میں جاری انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی حکومت سے بامعنی مذاکرات کرے گی۔
یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نئی دہلی سے اچھے تعلقات کے خواہاں تھے اور اس کے لیے انہوں نے کوشش بھی کی تھی تاہم اس بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ ان کے جانشین جنرل عاصم منیر کی بھی یہی خواہش ہے کہ نہیں۔
بحثیت مجموعی پاکستانیوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ انڈیا سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے پرامن تعلقات ہونے چاہییں۔ پاکستان کو اپنے اندرونی مسائل، خصوصاً معاشی ترقی پر توجہ دینی چاہیے جس کے لیے پرامن ماحول اولین شرط ہے۔
ملک میں مٹھی بھر سخت گیر عناصر انڈیا کو اب بھی ایک ’دائمی دشمن‘ کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن یہ تصور ماضی کی طرح امن کی کسی بھی کوشش کو متاثر ضرور کر سکتا ہے لیکن اگر دونوں ممالک کی قیادت اس پر سختی سے قائم رہیں تو اس عمل کو ڈی ریل نہیں کیا جا سکتا۔
انڈیا میں بطور ہائی کمیشنر خدمات انجام دینے کی وجہ سے مجھے ادراک ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان معمول کے تعلقات کتنے ضروری ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کو بقائے باہمی کے اصول کے تحت ساتھ ساتھ رہنا ہے اور اس کے لیے ماضی کے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو بھی یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گئی کہ انڈیا ایک ہندو اکثریتی ملک ہے۔
’دو قومی نظریے‘ کے تحت انڈیا کا بطور ’ہندو راشٹر‘ ظہور کوئی انہونی بات نہیں اور یہی وقت ہے کہ دونوں ملکوں کو اس حقیقت کو تسلیم کر کے آگے بڑھنا چاہیے۔ پاکستان اور انڈیا کی بطور مسلم اور ہندو شناخت ایک ایسی حقیقت ہے جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اپنے تعلقات کی بنیاد اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے مطابق رکھنی چاہیے اور ایک دوسرے کے ساتھ ممکنہ حد تک تعاون کرنا چاہیے۔
گذشتہ سات دہائیوں سے پاکستان اور انڈیا دوطرفہ یا خطے کے دیگر ممالک کے ذریعے بالواسطہ تجارت کرتے رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان جموں و کشمیر سمیت کئی غیر حل شدہ مسائل موجود ہیں جن کو حل کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ انہیں مسائل کی وجہ سے دونوں ممالک کبھی کسی پائیدار سمجھوتے یا مفاہمت پر نہیں پہنچ سکے۔
سٹریٹیجک طور پر دونوں ممالک کا پلڑہ خاص طور سے جوہری میدان میں تقریباً برابر ہے۔ ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہ کرنے، 1999 کی مفاہمت کی یادداشت اور اعلامیہ لاہور اعتماد سازی کے اقدامات کی چند ایک اچھی مثالیں ہیں۔
اگر ایسے اقدامات جاری رہتے ہیں، جو جاری رہنے بھی چاہییں، تو وہ وقت دور نہیں جب تعاون پر مبنی اگلے مرحلے کے تعلقات کام نہ کریں۔ دونوں ممالک کی میری ٹائم اور سرحدی افواج کے درمیان تعاون جاری ہے۔
جنوری 2014 میں دونوں ممالک کے وزرا تجارت نے نئی دہلی میں ہونے والی ملاقات میں غیر امتیازی طور پر اپنی منڈیوں تک رسائی پر اتفاق کیا تھا لیکن بدقسمتی سے جیسا کہ لاہور میں سوچا گیا تھا، اس معاہدے پر دستخط نہ ہو سکے کیوں کہ بظاہر بھارتیہ جنتا پارٹی چاہتی تھی کہ ایسا ان کے اقتدار میں آنے کے بعد ہو۔دونوں ممالک کے درمیان تجارت کی بحالی اچھا قدم ہو گا۔ اسی طرح معاشی تعاون کے بھی بڑے ممکنہ مواقع ہیں اور یہ تعاون بھی بحال ہونا چاہیے۔ دونوں ہی ممالک آلودگی، پانی کی قلت اور زمین کے بنجر ہونے جیسے کئی مشترکہ مسائل کا شکار ہیں جو باہمی تعاون سے حل ہو سکتے ہیں۔
دونوں ممالک میں ویزوں میں آسانیاں پیدا کے لیے بھی معاہدہ موجود ہے جس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
انسانیت سے متعلق مسائل جیسے ایک دوسرے کی جیلوں میں قید شہریوں کی رہائی کے لیے دونوں اطراف کے ججز کی مشترکہ تجاویز پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ زائرین کے مسائل کے حوالے سے تعاون کا فریم ورک تو موجود ہے لیکن اسے بھی بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات معمول پر آنے سے سارک تنظیم کو بھی زندہ کیا جا سکتا ہے۔ دونوں ممالک کو اپنے اپنے ہائی کمشنرز کو واپس بھیجنا چاہیے جب کہ دونوں ملکوں کی وزارت خارجہ کو بھی کشیدہ تعلقات معمول پر لانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
معمول کے تعلقات کی بحالی کے لیے دونوں ممالک کی قیادت کو مل بیٹھنے اور اسے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
یہ عمل اعلیٰ ترین سطح پر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ امید ہے کہ انڈیا میں نئی حکومت پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے کام کرنے پر راضی ہو جائے گی۔
واپس کریں