قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں ۔ محمد اکرم چوہدری
مجھے پاکستان کا عالمی اداروں سے قرض لینے کی خبریں، یا دوست ممالک سے تعاون کی اپیلیں یا دنیا کے مختلف ممالک سے ساتھ دینے کی درخواستیں اتنی تکلیف پہنچاتی ہیں کہ دن کا ستیا ناس ہو جاتا ہے۔ مطلب ہم اس حد تک بیحس ہو گئے ہیں کہ قرض ملنے پر مبارکبادیں وصول کرتے ہیں، قوم کو خوشخبری سناتے ہیں، ایک دوسرے کے گلے لگتے ہیں۔ مطلب کچھ تو خدا کا خوف کرو یار، حکمرانوں کو کیا ہو گیا ہے۔ اقتدار میں آنے کی خواہش رکھنے والا ہر شخص آنے سے پہلے بلند و بانگ دعوے کرتا ہے لیکن حکومت سنبھالنے کے بعد گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ ان دنوں بھی ہم شدید معاشی بحران کا شکار ہیں، قرض پر چل رہے ہیں۔ جب یہ خبریں سنتا، دیکھتا اور پڑھتا ہوں تو شدید تکلیف ہوتی ہے کہ آخر ہمارے کب حالات بہتر ہوں گے اور ہم کب مشکلات سے نکلیں گے، کون تعین کرے گا کہ " نو مور قرض " کون یہ سوچ پیدا کرے گا، کون اس سوچ کو پھیلانے کے لیے کام کرے گا، کون اس معاشی غلامی سے نکالنے کے لیے کام کرے گا، کون ہے جو مافیا سے دشمنی لے گا۔ مطلب ہمیں یہ سوچ کون دے کہ ہم لگ بھگ پچیس کروڑ لوگوں کا ملک ہیں، دنیا کیا سوچتی ہو گی کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، ہماری حالت کیا ہے، ہم کہاں کھڑے ہیں، کون ہم کب تک لوگوں سے قرض مانگتے رہیں گے، ہم کب تک یہ تکلیف برداشت کریں گے، بچے بڑے ہو رہے ہیں، نوجوان نسل کس طرح سر اٹھا کر چل سکتی ہے۔ لگ بھگ پچیس کروڑ لوگ مقروض ہیں۔ ملکی اخراجات اور آمدن میں کوئی توازن نہیں ہے، یہ تباہی کسی اور کی وجہ سے نہیں ہے۔ اس کی ذمہ داری حکومتوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ کیوں اخراجات میں اضافہ کیا جاتا رہا، کیوں وسائل میں اضافہ نہیں کیا گیا، کیوں آمدن و اخراجات میں توازن کے لیے بہتر حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی، کیا اس بدانتظامی کو صرف اتفاق کہا جا سکتا ہے، یقینا نہیں یہ مجرمانہ غفلت ہے۔ بالخصوص گذشتہ بیس پچیس برس میں ملک پر حکومت کرنے والے ہر شخص سے یہ پوچھنا چاہیے کہ کیا آپ اپنے گھر کے مالی معاملات کو بھی اس غفلت کے ساتھ دیکھتے ہیں، کیا کوئی بھی باشعور اپنے گھر کے آمدن و اخراجات میں توازن کو نظر انداز کرتا ہے یقینا نہیں پھر کیوں ملکی سطح پر یہ تباہ کن فیصلے کیے گئے ہیں۔ کیوں قرضے لے لے کر کام چلایا جاتا رہا اور کیوں معاشی اصلاحات کے بجائے آنکھیں بند کر کے قرضوں کے پیچھے لگے رہے۔ آج بھی قرضوں کا حصول سب سے اولین ترجیح ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ حکومت طے کر لے کہ کسی ٹیکس چور کو نہیں چھوڑا جائے گا، ٹیکس ادا نہ کرنے والے کسی بھی شخص سے کوئی رعایت نہیں ہو گی، ٹیکس کی رقم سے افسران کو مراعات نہیں دی جائیں گی، سینیٹ، قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلیوں کے اجلاسوں کا ایجنڈا جاری ہونے کے بعد اگر وہاں صرف بیانات اور لڑائیاں جھگڑے ہوں تو اجلاس پر آنے والے اخراجات اراکین کے اکاؤنٹ سے کاٹے جائیں، قومی و صوبائی اسمبلی کے اجلاسوں سے غیر حاضر رہنے والوں کو بھی جرمانے کیے جائیں، سرکاری افسران کو ملنے والی مراعات پر نظر ثانی کی جائے۔ کیا مقروض ملک کے افسران کو زیب دیتا ہے کہ وہ ہزاروں ارب خسارے میں رہنے والے ملک میں فضول خرچیاں کرتے پھریں۔ دیکھیں کیا حالت ہے ملک کے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کہتے ہیں کہ "قرض لینا کامیابی نہیں،کامیابی اس دن ہو گی جس دِن قرض سے نجات پائیں گے، درست سمت میں تسلسل سے محنت جاری رہی تو معاشی خوشحالی کا دور جلد آئے گا۔"
جناب میاں صاحب عرض ہے کہ قرض سے نجات اگر صرف بیانات سے ممکن ہوتی تو گذشتہ دور حکومت میں پاکستان ناصرف قرضوں کے بوجھ سے نکل چکا ہوتا بلکہ عین ممکن تھا کہ ساری دنیا پاکستان کی مقروض ہوتی کیونکہ جتنے بیانات گذشتہ حکومت نے جاری کیے اس کی تو مثال نہیں ملتی اب تو آپ وزیراعظم ہیں سو آپ سے درخواست ہے کہ اس قسم کے بیانات نہیں بلکہ عملی اقدامات کی طرف بڑھیں۔
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کہتے ہیں " سولہ ماہ کی حکومت کے دوران پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے میں آئی ایم ایف سے یہ معاہدہ اہم ثابت ہوا تھا، پاکستان کے معاشی تحفظ کے لیے تلخ اور مشکل فیصلے کیے۔ ان فیصلوں کے ثمرات معاشی استحکام کی صورت میں سامنے آرہے ہیں، اللہ تعالی نے معیشت کو بہتر بنانے کا موقع دیا ہے، پوری جان لڑائیں گے اور پاکستان کو معاشی ترقی دلائیں گے۔"
کاش کہ میرے ملک میں وہ وقت آئے جب ملک کا کوئی شہری مقروض نہ ہو اور اس ملک کے وزیراعظم کو یہ نہ کہنا پڑے کہ پاکستان کو معاشی ترقی دلائیں گے۔ پاکستان میں معاشی ترقی سے کہیں اہم ذہنوں کی ترقی ہے۔ بدقسمتی سے نہ تو دور دور تک معاشی ترقی کے امکانات نظر آتے ہیں اور نہ ہی ذہنی ترقی کے امکانات ہیں کیونکہ حکمرانوں کی مسلسل محنت سے ملک کے کروڑوں لوگوں کے ذہنوں سے زندگی کا مقصد ہی ختم ہو چکا ہے۔ لوگوں کو یہ علم ہی نہیں کہ وہ کیوں سوتے ہیں کیوں جاگتے ہیں، بس وقت گذار رہے ہیں۔ لوگوں کو زندگی کا مقصد دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سیاسی قیادت قوم کو یہ سوچ دے سکتی ہے۔ جو سیاسی قیادت آمدن و اخراجات میں توازن قائم نہیں رکھ سکتی وہ قوم کو بامقصد زندگی کی سوچ کیسے دے سکتی ہے۔
واپس کریں