ستائیسویں ترمیم ۔ اسلامی روایات کے تناظر میں۔ریاض احمد

شام میں رومیوں کیخلاف فیصلہ کن معرکہ جاری تھا جسے جنگ یرموک کہا جاتا ہے۔ عین لڑائی کے دوران ایک ایلچی خلیفہِ وقت حضرت عمر(ر) کا پیغام لایا جس میں حضرت خالد کو ہدائت کی گئی تھی کہ وہ یہ رقعہ ملتے ہی لشکر کی قیادت ابو عبیدہ بن الجراح (ر) کو سونپ دیں۔ یہ فیصلہ خود ابوعبیدہ (ر) کو بڑا عجیب سا لگا لیکن حضرت خالد نے اپنی تلوار فضا میں لہراتے ہوئے کہا میں نے تلوار ابنِ خطاب کے لیے نہیں، اس رب کے لیے اٹھائی ہے جس کا عمر بھی بندہ ہے'۔ نہ کوئی ناراضگی نہ مزاحمت اور قیادت کی 'چھڑی' نئے سپہ سالار کے حوالے کرکے لڑائی اس انداز سے جاری رکھی جیسے کچھ بھی تبدیل نہ ہواہو۔ حضرت خالد بن ولید(ر) سے بڑا کوئی جرنیل ہماری تاریخ میں نہیں گزرا۔ خود آقا (ص) نے انھیں سیف اللہ یا اللہ کی تلوار قراردیاہے۔
دوسری طرف حضرت عمر (ر) نے فرمایا کہ میں نے خالد کو اس لیے ہٹایا کہ لوگ سمجھنے لگے تھے کہ جنگیں خالد کے سبب جیتی جاتی ہیں، حالانکہ مدد اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔خالد سے کوئی ناراضگی ہے نہ سیف اللہ کسی غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ یہ جملہ اسلامی حکمرانی کے بنیادی اصول کو نمایاں کرتا ہے۔
ہماری تاریخ کا روشن سبق یہی ہے کہ کوئی شخص، خواہ کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو، ناگزیر یا نظام کا متبادل نہیں۔ریاست اور ادارے افراد سے بڑے ہیں، چاہے وہ فرد کتنی ہی غیر معمولی صلاحیت کیوں نہ رکھتا ہو۔
آج جب ہمارے ملک میں ایک فرد کو مستقل، تاحیات، اور عملاً ناگزیر حیثیت دینے کی بات کی جا رہی ہے، تو یہ سوال اٹھنا چاہئے کہ اگر اسلام کے سب سے کامیاب جنرل بھی نظام سے بالاتر نہیں ہوئےتو آج کوئی فرد حرفِ آخر کیسے ہو سکتا ہے؟
27ویں آئینی ترمیم کے مباحث نے یہ فکر دوبارہ تازہ کر دی ہے کہ ریاستیں افراد کے سہارے نہیں چلتیں بلکہ اصولوں، شفافیت، اور اختیار کی باقاعدہ تقسیم پر چلتی ہیں۔حضرت عمر کا موقف تھا کہ سپہ سالاری کا معیار ’’فتح‘‘ نہیں بلکہ ’’نظام‘‘ ہے اور یہی اصول کسی بھی جدید ریاست کو مضبوط کرتا ہے
ملک کے حکمرانو!!! اختیار دائمی نہیں ہوتا، جواب دہی دائمی ہوتی ہے۔
واپس کریں