سرسید کشمیر، بابائے پونچھ، کرنل خان محمد خان (عہد ساز شخصیت)

نجیب الغفور خان (جموں و کشمیر لبریشن سیل) بابائے پونچھ، خانصاحب کرنل خان محمد خان، یکم جنوری 1882ء کو پونچھ جاگیر، موجودہ ضلع سدھنوتی کے گاؤں چھے چھن میں الحاج سردار محمد مہندا خان کے گھر پیدا ہوئے اور ان کا تعلق سدھن فیملی سے تھا۔ انہوں نے قرآن پاک کی تعلیم اپنے گھر میں مولوی علی بہادر موضع بارل (بلاں ناڑ) سے حاصل کی اور دس سال کی عمر میں کہوٹہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پرائمری تعلیم کی تکمیل کے بعد، خان صاحب نے 23 ستمبر 1902ء کو 102 گرینڈئیر میں سپاہی کی حیثیت سے برطانوی ہند کی فوج میں ملازمت اختیار کی اور 1911ء میں جمعہ دار جبکہ 1916ء میں صوبیدار کے عہدے پر ترقی پائی۔ انہوں نے جنگ عظیم اول (1914-1918) میں عملی حصہ لیا اور انڈین ڈسٹنگوش سروس میڈل (IDSM) کا ایوارڈ حاصل کیا۔ بعد ازاں وہ برطانوی ہند کی فوج سے صوبیدار میجر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے اور پونچھ کے راجہ بلدیو سنگھ کے ہاں بطور پولیس انسپکٹر ملازمت اختیار کی۔ آپ اسسٹنٹ ریکروٹنگ آفیسر اور وائسرائے کے اے ڈی سی بھی مقرر ہوئے، اور دورانِ ملازمت چھ کنال اراضی حاصل کر کے پونچھ میں سدھن سرائے تعمیر کرائی، جہاں غریب طلباء اور مسافروں کی مفت رہائش اور طعام کا بندوبست تھا۔ اس کے علاوہ، پلندری میں سولجر بورڈ کا دفتر تعمیر کرایا جس سے فوجیوں کی بیواؤں اور یتیم بچوں کو پنشن اور مستحقین کو تمغے دلائے۔
تعمیر و فلاحی خدمات اور ڈوگرہ حکومت سے تناؤ
1920ء میں خان صاحب نے انگریز کرنل جو ریزیڈنٹ کے عہدے پر تعینات تھا، سے کوشش کرتے ہوئے لچھمن پتن (موجودہ آزاد پتن) سڑک کی تعمیر کے پراجیکٹ کا حصول ممکن بنایا۔ اسی دوران، تحصیل سدھنوتی میں آفیسر مقرر ہوئے اور قحط سے پیدا ہونے والی صورتحال کا باعزت حل نکالا، جس پر وزیر پونچھ نے انہیں تعریفی سند دی۔ خان صاحب کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہوکر ڈوگرہ حکومت نے نومبر 1922ء میں 24 گھنٹے کے نوٹس پر انہیں ریاست بدر کر دیا۔ حالانکہ اس دور میں وہ انجمن اسلامیہ پونچھ کے صدر تھے۔ عوام کی بھرپور مزاحمت کے باعث راجہ پونچھ کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔
تعلیمی و سماجی اصلاحات اور سدھن ایجوکیشنل کانفرنس
خان صاحب نے بطور سماجی کارکن اپنے علاقے اور قوم کی فلاح و بہبود کے لیے بالخصوص ضلع پونچھ اور بالعموم ریاست جموں و کشمیر میں مختلف سماجی اور تعلیمی تنظیموں کی بنیاد رکھی۔ ان کا مقصد سماج میں جڑ پکڑ چکی سود در سود، جہیز، شادی اور مرگ کی تباہ کن رسومات، اور نسوار، چائے، تمباکو، سگریٹ وغیرہ کے استعمال جیسی فضول اور معاشی بدحالی کا سبب بننے والی رسومات کو ختم کرنا تھا۔ انہوں نے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر ان سے چھٹکارے کے لیے بھرپور مہم چلائی اور علم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی۔
1930ء میں انہوں نے سماج کی بہتری اور پونچھ جاگیر میں تعلیم عام کرنے کے لیے Socio-educational تحریک کا آغاز کیا، کیونکہ مسلمان تعلیمی لحاظ سے پونچھ جاگیر میں 2 فیصد اور پوری ریاست میں صرف 5 فیصد تھے۔ 1934ء میں باضابطہ طور پر سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس کا پہلا اجلاس 1936ء میں پوٹھی میر خان کے مقام پر منعقد ہوا، اور یہ تنظیم تاحال برصغیر کی قدیم این جی او ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔
انہوں نے خواتین اور بچیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے دھار دھرچھ میں خواتین کا ایک اجلاس بلایا اور تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے لیے "مٹھی بھر آٹا سکیم" متعارف کروائی، جس کے تحت تمام گھرانوں سے ہفتہ وار بنیادوں پر مٹھی آٹا جمع کیا جانے لگا۔ اس فنڈ سے پلندری کے مقام پر جامعہ مسجد اور مدرسہ دارالعلوم تعمیر کروائے۔ بعد ازاں، خان صاحب نے پونچھ کے مختلف علاقوں میں کئی اسکول تعمیر کروائے اور اساتذہ نے رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دیں۔ 17 نومبر 1939ء کو پلندری کے قریبی گاؤں چھے چھن میں گرلز اسکول تعمیر کروایا۔ سدھن ایجوکیشن کانفرنس کے اجلاس مسلسل نو سال تک مختلف مقامات پر منعقد ہوتے رہے، جن میں دریک (راولاکوٹ) کی عیدگاہ کا اجتماع بڑا تاریخی تھا۔
سیاسی بیداری اور "39 مطالبات"
1932ء میں خان صاحب نے ڈوگرہ مہاراجا کشمیر اور راجہ پونچھ کی دوہری غلامی میں کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے والے مسلمانانِ پونچھ کے مسائل کا مشاہدہ کیا اور "39 مطالبات" پر مشتمل ایک طویل فہرست مرتب کی، جو انہوں نے ایک وفد کے ہمراہ وزیر اعظم کشمیر اے جی کالون کو پیش کیے۔ ان میں سے بیشتر مطالبات منظور ہوئے اور ایک خصوصی گزٹ کے ذریعے مشتہر کیے گئے۔ 1832ء کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلمان رہنما نے اپنی عوام کے حقوق کے لیے باقاعدہ مطالبات پیش کیے ہوں، جس سے عوام میں سیاسی بیداری پیدا ہوئی اور انہیں اپنی عزت نفس کا احساس ہوا۔
ریاست پونچھ کے لیے کشمیر اسمبلی میں دو نشستیں رکھے جانے پر راجہ پونچھ کی مخالفت کے باوجود، خان صاحب اور سردار فتح محمد خان کریلوی نے مولانا غلام حیدر، چراغ حسن حسرت اور محمد دین فوق کی وساطت سے علامہ اقبال سے رہنمائی حاصل کی، جس کے نتیجے میں پونچھ کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ بنایا گیا اور اسے ریاستی اسمبلی میں نمائندگی حاصل ہوئی۔ خان صاحب نے 1934ء سے 1946ء تک مسلسل 12 سال جموں و کشمیر اسمبلی میں تحصیل سدھنوتی اور تحصیل باغ کی نمائندگی کی اور عوام کے مسائل کو بڑی تفصیل اور بے باکی سے اسمبلی میں پیش کیا۔ ان کی مسلمانانِ پونچھ کی تعلیمی و اقتصادی فلاح و بہبود کے لیے کوششوں کی بدولت انہیں "فنافی القوم قائداعظم" کا خطاب دیا گیا۔ 1946ء میں انہوں نے خود الیکشن نہ لڑنے کے بجائے سردار محمد ابراہیم خان کو اپنی جگہ ممبر اسمبلی بنانے کا فیصلہ کیا، جو بعد میں آزاد کشمیر کے بانی صدر بنے۔
جدوجہدِ آزادیِ کشمیر اور اعزازی کرنل کا عہدہ
1946ء میں خان صاحب نے دہلی میں حضرت قائداعظم سے ملاقات کی اور انہیں پونچھ میں موجود 60 ہزار تربیت یافتہ فوجیوں کی دستیابی کی اطلاع دی جو ڈوگرہ شاہی سے آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کے خواہاں تھے۔ قائداعظم نے محترمہ فاطمہ جناح کی موجودگی میں فرمایا کہ "جدوجہد شروع کرو، اسلحہ فراہم کیا جائے گا،" جس کی تصدیق علی احمد شاہ صاحب کی تصنیف "جنگ آزادئ کشمیر" سے بھی ہوتی ہے۔
تحریک جنگ آزادی کے دوران، 7 اکتوبر 1947ء کو انہوں نے پلندری میں وار کونسل تشکیل دی، جس کے وہ خود چیئرمین تھے، اور صدر کرنل شیر احمد خان تھے۔ اس وار کونسل نے مجاہدوں کو منظم کیا، اسلحہ فراہم کیا اور مختلف محاذوں پر بھیجا۔ سردار محمد ابراہیم کی انقلابی حکومت کے اعلان (24 اکتوبر) تک، اسی وار کونسل نے سول نظم و نسق کو بڑے احسن طریقے سے چلایا۔ بریگیڈئیر محمد صادق ستی نے اپنی یادداشتوں میں پونچھ کے محاذ پر ان کی مجاہدین کے ساتھ جنگ میں بھرپور شرکت اور حوصلہ افزائی کا اعتراف کیا، اور ساتھ ہی پنجاڑ سے پونچھ محاذ تک 25 پونذر گن پہنچانے کے ناممکن کام کو ممکن بنانے پر ان کی کاوشوں کو سراہا۔ خان صاحب کی صلاحیتوں اور ریاستی عوام سے عقیدت کے پیش نظر، حکومت پاکستان نے انہیں اعزازی کرنل کے عہدے پر فائز کیا۔ وہ بعد میں ڈیفنس کونسل کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔ ڈوگرہ راج کے خلاف جنگ آزادی کا آغاز 36-1832ء کے پرآشوب دور سے ہی ہو چکا تھا جب سدھنوتی کے غیوروں نے ڈوگرہ حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔
1947ء کی جنگ آزادی میں سدھنوتی کے تربیت یافتہ لوگوں نے آزاد کشمیر کا بیشتر علاقہ فتح کیا۔ جنگ آزادی کا آغاز 12 اکتوبر کو لچھن پتن (آزاد پتن) سے ہوا، جہاں کیپٹن حسین خان شہید کی ہدایت پر راجہ سخی دلیر اور ان کے ساتھیوں نے ڈوگرہ فوجوں پر فائر کھولا اور انہیں پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ یہ خان صاحب کی دور اندیشی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اس خطے کے ہزاروں لوگوں کو برطانوی فوج میں بھرتی کروایا، جنہوں نے اپنی عسکری صلاحیتوں سے 1947ء میں ڈوگرہ افواج کے ساتھ لڑ کر یہ خطہ آزاد کروایا۔
القابات اور ورثہ
ان کی صلاحیتوں اور خدمات کے صلے میں، 11 جون 1942ء کو وائسرائے ہند و گورنر جنرل انڈیا نے برطانوی حکومت کی طرف سے انہیں "خان صاحب" کا خطاب دیا۔ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر نے انہیں "بابائے پونچھ" اور "غازی کشمیر" کے خطاب سے نوازا۔ ان کے آبائی گاؤں چھے چھن کو حکومت آزاد کشمیر کی طرف سے "خان آباد" کا نام دیا گیا۔ ان کی تعلیمی اصلاحات سے متاثر ہو کر، خان محمد خان گورنمنٹ بوائز پوسٹ گریجویٹ کالج پلندری اور کیڈٹ کالج پلندری کا ایک ہاؤس "خان ہاؤس" ان کے نام سے موسوم کیے گئے۔
خان صاحب نے ہمیشہ لوگوں میں صلح جوئی، بھائی چارگی اور محبت کا درس دیا۔ انہوں نے قومی خدمت کے لیے سیاست کی بجائے علم اور اصلاحِ معاشرہ جیسے دشوار مگر پائیدار شعبوں کا انتخاب کیا۔ آپ نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ مملکت پاکستان کا بھی ایک قومی اثاثہ تھے۔
بابائے پونچھ خانصاحب کرنل خان محمد خان 11 نومبر 1961ء کو انتقال فرما گئے، لیکن اپنے اعمال، کردار اور اصلاحی تحریکوں کے باعث تاریخ میں ہمیشہ زندہ و تابندہ ہیں۔ ہر سال 11 نومبر کو ان کی برسی نہایت عقیدت و احترام سے ان کے مزار واقع پلندری، آزاد کشمیر پر منائی جاتی ہے۔
واپس کریں