
اس بات کوئی شک و شبہ نہیں کہ دیگر سیاست دانوں کی طرح نواز شریف سے بھی سیاسی غلطیاں سر زرد ہوئی ہیں، انہوں نے کئی غلطیوں سے سیکھا اور کئی غلطیوں سے نہیں سیکھا لیکن اس کے باوجود نواز شریف کی جمہوریت اور سول بالادستی کے لیے کوششوں سے انکار ممکن نہیں۔ تین بار منتخب وزیراعظم رہے لیکن انہیں اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی(وجہ سول بالادستی کی بات کی) جو اس بات کا بڑا ثبوت ہے کہ انہوں نے غیر سیاسی قوتوں یا باالفاظ دیگر اشٹبلشمنٹ کے آگے سرنڈر نہیں کیا یعنی نواز شریف نے اپنی سیاسی زندگی میں جمہوریت کی بحالی اور سول بالادستی (جمہوری اداروں کی فوج پر فوقیت) کے لیے کردار ادا کیا یہی وجہ ہے کہ ان کے فیصلوں کو فوجی مداخلتوں، عدالتی فیصلوں، اور سیاسی جدوجہد کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ نواز شریف اشٹبلشمنٹ کی بالادستی کو چیلنج کرنے والے پہلے رہنما کے طور پر ابھرے اس کا بڑا ثبوت سابق آمر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ(یعنی آرٹیکل6)چلانے کی ہمت بھی نواز شریف نے ہی تھی جو شاید کسی اور سیاسی لیڈر کے نصیب میں نہیں آئی۔
نواز شریف نے 2006 میں لندن میں اپنی روایتی حریف بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے۔ یہ دستاویز پاکستان میں جمہوری نظام کی بحالی، فوجی مداخلتوں کو روکنے، اور سول اداروں کی مضبوطی کے لیے جامع منصوبہ تھی۔ اس میں فوج کی سیاسی مداخلت، عدلیہ کی آزادی اور پارلیمانی بالادستی کو یقینی بنانے کی تجاویز شامل تھیں۔اسی معاہدے نے 2008 کے انتخابات میں فوجی حکمران پرویز مشرف کی حکومت کا خاتمہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، جو پاکستان کی تاریخ کا پہلا پرامن منتقلیِ اقتدار تھا۔
نواز شریف کی پہلی حکومت کو اشٹبلشمنٹ کے نمائندے صدر اسحاق خان مرحوم نے آئین کے آرٹیکل 582Bکے تحت برطرف کیا تھا تا ہم سپریم کورٹ نے نواز شریف کی اپیل پر فیصلہ دیا اور انہیں دوبارہ بحال کیا، جو سول بالادستی کی ایک بڑی فتح تھی۔2016 میں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت کی توسیع سے انکار کیا جو سول بالادستی کی ایک واضح مثال تھی۔ اس فیصلے نے فوج کو آئین کے دائرے میں رکھنے کی کوشش کی۔
آج اگر27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے حوالے سے پاکستانی سیاست کے کسی بھی طالب علم سے پوچھا جائے کہ اس وقت اگر وزیراعظم نواز شریف ہوتے تو کیا مذکورہ ترمیم ہو جاتی تو جواب نفی میں ہو گا کیونکہ نواز شریف کی سیاسی تاریخ یہی بتاتی ہے۔
اب اگر کوئی یہ کہے کہ نواز شریف نے سابق جنرل جیلانی مرحوم کی گود میں سیاسی پرورش پائی یا سابق آمر جنرل ضیاء الحق کے زیر سایہ سیاست کرتے رہے تو پھر کوئی یہ بھی کہے کہ سابق آمر جنرل ایوب خان کو”ڈیڈی“کون کہتا تھا اور کون”ڈیڈی“کی کابینہ میں وزیر تھا؟اب کوئی یہ بھی کہے کہ نواز شریف نے سابق آرمی چیف باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیح پر کیوں ووٹ دیاتھا (جبکہ ووٹ تو جمہوریت کی سب سے بڑی علمبردار پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی دیا تھا) تو پہلے ہی عرض کر دیا ہے یہ غلطی بھی ان غلطیوں میں سے ایک تھی جو نواز شریف سے ہوئی)
آخر میں عرض ہے، موجودہ ہائبرڈحکومتی نظام میں شامل پاکستان مسلم لیگ ن کے اکابرین اگر نہ چاہتے ہوئے بھی مجبوری کے عالم میں عوام کش یا غیر مقبول فیصلے کرتے جا رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ نواز شریف کو غیر محسوسانہ طریقے سیاست اور حکومت سے لاتعلق کرنے کے جرم میں ملوث کرداروں کو آئندہ قومی سیاست میں پناہ گاہ بھی نہیں ملے گی کیونکہ یہ بھی نواز شریف کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ جس نے بھی نواز شریف سے دو نمبری یا سازش کی وہ کہیں کا بھی نہیں رہا۔
واپس کریں