
چیف کے نیچے تینوں افواج اور چیف کے پاس تین عہدے ( ایک تاحیات اعزازی معہ مکمل آئینی استثنیٰ اور مراعات، دو آئینی)۔زرداری صاحب کو تاحیات استثنیٰ حاصل۔ججز کی تقرریاں تبادلے من مرضی سے۔ انکار کرنے والا جج فارغ تصور ہو گا۔آئینی عدالت میں رئیٹائرڈ ججز ایڈہاک بیس پر بھی آ سکتے۔سپریم کورٹ صرف روزمرہ کے دیوانی و فوجداری مقدمات کی اپیلز دیکھے گی۔
اس ترمیم میں اگلوں نے سارے خانے ٹائٹ سیل کر دئیے ہیں تاکہ کہیں سے ہوا بھی خارج نہ ہونے پائے۔ آپ اسے جو مرضی سمجھیں میں اسے طاقت کے مرکز کا مکمل کنٹرول سمجھتا ہوں۔ اور اب یہی ہے جو ہے۔ یہی چلے گا تاوقتیکہ قدرت کوئی اپنا میکانیزم فعال نہ کر دے۔ جس کا امکان مستقبل قریب میں دکھائی نہیں دیتا۔ طاقت کا مرکز اس قدر طاقتور ہو رہا ہے کہ اسے کی طاقت کے زور کا اثر کم ہوتے بھی کئی سال لگیں گے۔ صرف یہی نہیں اگر کوئی نقطہ اُٹھ کھڑا ہوا یا کوئی کھڑکی مکمل بند ہونے سے رہ گئی تو اس کے سدباب واسطے اچانک اٹھائیسویں ترمیم بھی ایسے ہی وارد ہو سکتی ہے اور ایسے ہی منظور ہو سکتی ہے۔پاکستان ایک بار پھر دس گیارہ سال کے ایک اور دائرے میں داخل ہو چکا ہے۔
پچھلا فیز مشرف کا گزارا تھا۔ پے در پے بلنڈرز کے تابوت میں آخری کیل بینظیر کا قتل ثابت ہوا۔ طاقت کے مرکز کے اندر ہی پاور شفٹ گیم چلتی رہی۔ کیانی صاحب وکلاء تحریک کے روح رواں تھے۔ مشرف کی رخصتی ایک نیا دس سالہ کیانی فارمولہ لے کر آئی۔ اب کے فارمولے میں بظاہر سول جمہوری حکومتوں کا دور تھا۔ یہی پاکستان کی تاریخ رہی۔ جب سول حکمران اپنا کچا چٹھہ اپنے گلے کا پھندہ بنا لیتے تو فوج تازہ دم ہو کر آ جاتی اور جب فوجی حکمران مطلق العنانی کی حدیں پار کر دیتے تو سول سپیس پیدا ہونے لگتی۔ کیانی فارمولے میں میثاق جمہوریت والی دو بڑی جماعتیں یعنی جمہوریت کے چیمپئینز آن بورڈ تھے۔ پانچ پانچ سالہ اقتدار تو دونوں کو نصیب ہوا لیکن کسی جماعت کا وزیراعظم اپنی مدت مکمل نہ کر پایا۔ وکلاء تحریک نے “ آزاد عدلیہ” کی جو داغ بیل ڈالی تھی وہ مادر پدر آزاد عدلیہ ثابت ہوئی۔ اس نے آئینی تفسیر کی آڑ میں ہتھوڑا گروپ کا روپ دھارن کر لیا۔
صاحب لوگ بڑے گیانی ہوتے ہیں۔ ضرورت تھی ٹو پارٹی سسٹم کو توڑنے اور اپنا فردِ خاص میدان میں کھڑا کرنے کی جس کو آل ان ون سلوشن اور نجات دہندہ بتایا جاوے جو آئے گا اور تمام دکھوں سے نجات دلائے گا۔ جنرل پاشا سے لے کر احتشام ظہیر اور عاصم باجوہ تا آصف غفور نے سنہ 2010 تا 2018 ففتھ جنریشن وار کے بینر تلے ایک بہت بڑا مہاتما تراش ڈالا۔ “میں کلا ای کافی آں” ۔۔ “متھے رنگ دیاں گا” سیاست میں سلطان راہی دور داخل ہوا۔ اقتدار بھی ملا اور پھر اقتدار کے تخت پر بچھی ململی پوشاک بھی کھینچ لی گئی۔اور پھر نو مئی ہو گیا اور پھر دس مئی ون ڈے جنگ لگ گئی۔
مشرف کی رخصتی سے لے کر دس مئی جنگ تک کے سولہ سترہ سالوں میں اہلِ سیاست یا سول حکومتوں نے آپسی توں تڑاں، مار دھاڑ اور تیری فلاں کی ڈھینگ کے سوا عدلیہ سے لڑنے اور عدلیہ نے ان کو سیٹل کرنے، سڑکوں پر دنگا مچانے، ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑ کر سڑکوں پر گھسیٹنے ، سوئس بینکوں سے دو سو ارب ڈالرز واپس لا کر آئی ایم ایف کے منہ پر مارنے جیسی بڑھک بازی، سرکاری خزانے میں خرد برد اور کک بیکس کے علاوہ کچھ کیا بھی نہیں تھا۔ تو پھر آ گئے ایک نئے چہرے کے ساتھ، ایک نیا نظام لیے جس کو ہائبرڈ کہتے ہیں۔ اب ایک نیا دس بارہ سالہ دائرہ کھینچ دیا گیا ہے۔ دیکھیں یہ فیز کیا رنگ لائے۔ فی الحال تو ہم سب عہدِ فیلڈ مارشل میں داخل ہو چکے ہیں۔
اب ساری قوم ریلز دیکھے، ڈنگ ٹپائے (وقت گزارے) اور خوش خوش رہے۔ “الحمدللہ الحمدللہ، ساڈی ڈش تیار ہو گئی۔ ہُن اسی لان لگے دیسی تھوم دا تڑکا۔”
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
(منقول)
واپس کریں